سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
توحید کی برکتیں
حدیث نمبر: 20
- (كانَ رجلٌ ممَّن كان قبلكم لم يعمل خيراً قطُّ؛ إلا التوحيد، فلما احتُضر قال لأهله: انظروا: إذا أنا متُّ أن يحرِّقوه حتى يدعوه حمماً، ثم اطحنوه، ثم اذروه في يوم ريح، [ثم اذروا نصفه في البر، ونصفه في البحر، فوالله؛ لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذاباً لا يعذبه أحداً من العالمين]، فلما مات فعلوا ذلك به، [فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه]، فإذا هو [قائم] في قبضة الله، فقال الله عز وجل: يا ابن آدم! ما حملك على ما فعلت؟ قال: أي ربِّ! من مخافتك (وفي طريق آخر: من خشيتك وأنت أعلم)، قال: فغفر له بها، ولم يعمل خيراً قطُّ إلا التوحيد).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، ماسوائے توحید کے۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے کنبے والوں سے کہا: غور سے سنو: اگر میں مر گیا تو مجھے جلا کر کوئلہ بنا دینا، پھر پیس کر نصف خشکی کی ہوا میں اُڑا دینا اور نصف سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر آ گیا تو وہ مجھے ایسا شدید عذاب دے گا جو جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس نے اس کے ذرات جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا، اس نے بھی اس کے اجزا جمع کر دئیے، اچانک (اسے وجود عطا کیا گیا اور) وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں کھڑا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ابن آدم! تجھے تیرے کیے پر کس چیز نے اکسایا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! (میں نے سارا کچھ) تیرے ڈر سے (کروایا)، اور تو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے ڈرنے کی وجہ سے معاف کر دیا، حالانکہ اس کا کوئی نیک عمل نہیں تھا، ماسوائے توحید کے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 304/2، والحديث أخرجه مالك: 1/ 238، و من طريقه البخاري: 7506، و مسلم: 97/8، من طرق اخرى عن ابي هريرة»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 20 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 20
فوائد:
یہ توحید کی برکتیں ہیں، اللہ تعالی ہمیں سچا موحد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
قارئین کرام! غور طلب بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے سو افراد کے قاتل اور پیاسے کتے پر ترس کھا کر اس کو پانی پلا دینے والے شخص کو معاف کر دیا، لیکن دوسری طرف بلی کو مارنے کے لیے اسے باندھ دینے والی عورت کو جہنم کا حقدار بنا دیا اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو قبر نے بھینچنا شروع کر دیا۔
اس قسم کی نادر مثالوں سے ہمیں سبق یہ ملتا ہے کہ نیکیوں کی اپنی برکتیں ہیں اور برائیوں کی اپنی نہوستیں ہیں، معلوم نہیں کہ اللہ تعالی ہمارے بارے میں کون سا قانون استعمال کریں گے، آیا ہمارے گناہوں پر ہماری گرفت کریں گے، جیسا کہ بلی کو مارنے والی عورت کے ساتھ کیا یا ہماری لغزشوں کو بخش دیں گے، جیسا کہ سو افراد کے قاتل سے کیا؟ ہم یقین کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، ہاں اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن ضرور رکھیں گے کہ وہ ہم سے رحمت والا معاملہ کرے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان مثالوں پر مشتمل ان احادیث کے اولین سامعین صحابہ کرام کی سوانح عمریاں ہمارے سامنے ہیں، ان کو اپنی نیکیوں کی وجہ سے خوشی ہوتی تھی، لیکن وہ اپنی بشری لغزشوں کی وجہ سے پریشان ہو جاتے تھے اور نتیجہ یہ نکالتے تھے کہ حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ توشۂ آخرت جمع کر لینا چاہیے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 20