(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا إسماعيل بن جعفر , عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن , عن يزيد مولى المنبعث , عن زيد بن خالد الجهني , ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة، فقال: " عرفها سنة , ثم اعرف وكاءها , ووعاءها , وعفاصها , ثم استنفق بها فإن جاء ربها فادها إليه " , فقال له: يا رسول الله , فضالة الغنم؟ فقال: " خذها فإنما هي لك او لاخيك او للذئب " , فقال: يا رسول الله , فضالة الإبل؟ قال: فغضب النبي صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه , او احمر وجهه , فقال: " ما لك ولها معها حذاؤها , وسقاؤها , حتى تلقى ربها ". حديث زيد بن خالد حديث حسن صحيح , وقد روي عنه من غير وجه , وحديث يزيد مولى المنبعث , عن زيد بن خالد حديث حسن صحيح , وقد روي عنه من غير وجه , قال: وفي الباب , عن ابي بن كعب , وعبد الله بن عمرو , والجارود بن المعلى , وعياض بن حمار , وجرير بن عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ , أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً , ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا , وَوِعَاءَهَا , وَعِفَاصَهَا , ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ " , فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: " خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ " , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ , أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ , فَقَالَ: " مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا , وَسِقَاؤُهَا , حَتَّى تَلْقَى رَبَّهَا ". حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , وَحَدِيثُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّى , وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ , وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سر بند، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھر اسے خرچ کر لو اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اُسے ادا کر دو“، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑ کر باندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے“۔ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہو گئے۔ یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہو گیا اور آپ نے فرمایا: ”تم کو اس سے کیا سروکار؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ۱؎(وہ پانی پر جا سکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جا ملے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے اور بھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، ۳- اور ان سے یہ اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے۔
وضاحت: ۱؎: جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھر لیتا ہے اور باربار پانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیئے وغیرہ کا خوف نہیں وہ خود اپنا دفاع کر لیتا ہے اس لیے اسے پکڑ کر باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو بكر الحنفي، اخبرنا الضحاك بن عثمان , حدثني سالم ابو النضر , عن بسر بن سعيد , عن زيد بن خالد الجهني , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن اللقطة , فقال: " عرفها سنة فإن اعترفت فادها , وإلا فاعرف وعاءها , وعفاصها , ووكاءها , وعددها , ثم كلها , فإذا جاء صاحبها فادها ". قال ابو عيسى: حديث زيد بن خالد حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه , اصح شيء في هذا الباب هذا الحديث , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , ورخصوا في اللقطة إذا عرفها سنة , فلم يجد من يعرفها ان ينتفع بها , وهو قول: الشافعي , واحمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: يعرفها سنة , فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها , وهو قول: سفيان الثوري , وعبد الله بن المبارك , وهو قول: اهل الكوفة , لم يروا لصاحب اللقطة ان ينتفع بها إذا كان غنيا , وقال الشافعي: ينتفع بها وإن كان غنيا , لان ابي بن كعب اصاب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرة فيها مائة دينار , فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعرفها , ثم ينتفع بها , وكان ابي كثير المال , من مياسير اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يعرفها , فلم يجد من يعرفها , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان ياكلها , فلو كانت اللقطة لم تحل إلا لمن تحل له الصدقة , لم تحل لعلي بن ابي طالب , لان علي بن ابي طالب اصاب دينارا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فعرفه , فلم يجد من يعرفه , فامره النبي صلى الله عليه وسلم باكله , وكان لا يحل له الصدقة , وقد رخص بعض اهل العلم إذا كانت اللقطة يسيرة ان ينتفع بها , ولا يعرفها وقال بعضهم: إذا كان دون دينار يعرفها قدر جمعة , وهو قول: إسحاق بن إبراهيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ , حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ , عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ , أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا , وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا , وَعِفَاصَهَا , وَوِكَاءَهَا , وَعَدَدَهَا , ثُمَّ كُلْهَا , فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً , فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا , وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: يُعَرِّفُهَا سَنَةً , فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْكُوفَةِ , لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا , وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا , لِأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ , فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا , ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا , وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ , مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا , فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَهَا , فَلَوْ كَانَتِ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلَّا لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ , لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَّفَهُ , فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَكْلِهِ , وَكَانَ لَا يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ , وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَتِ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا , وَلَا يُعَرِّفَهَا وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ , وَهُوَ قَوْلُ: إِسْحَاق بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”سال بھر اس کی پہچان کراؤ ۱؎، اگر کوئی پہچان بتا دے تو اسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے، ۳- یہ ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہو جائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہٰ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کر دے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے، ۶- لقطہٰ اٹھانے والا جب مالدار ہو تو یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں، ۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مالدار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اور بہت مالدار تھے، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔ (دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہٰ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے تو علی رضی الله عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی رضی الله عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے (سال بھر تک) اس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالانکہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا، ۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہٰ معمولی ہو تو لقطہٰ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کا پہچان کروانا ضروری نہیں ۲؎، ۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینار سے کم ہو تو وہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے، ۱۰- اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 3748) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کا ذکر ہے اور باب کی آخری حدیث میں تین سال کا ذکر ہے، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قرار دیا جائے، پہچان کرانے کی صورت یہ ہو گی کہ بازار اور اجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیا جائے کہ گمشدہ چیز کی نشانی بتا کر حاصل کی جا سکتی ہے، اگر کوئی اس کی نشانی بتا دے تو مزید شناخت اور گواہوں کی ضرورت نہیں بلا تأمل وہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے۔
۲؎: اس کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها» یعنی ”میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتا ہے، اس کو کھا لینا چاہتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو، تو اسے پھینک دیتا ہوں“، اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا عبد الله بن نمير , ويزيد بن هارون , عن سفيان الثوري , عن سلمة بن كهيل , عن سويد بن غفلة , قال: خرجت مع زيد بن صوحان , وسلمان بن ربيعة , فوجدت سوطا , قال ابن نمير في حديثه: فالتقطت سوطا , فاخذته قالا: دعه , فقلت: لا ادعه تاكله السباع , لآخذنه فلاستمتعن به , فقدمت على ابي بن كعب فسالته عن ذلك وحدثته الحديث، فقال: احسنت وجدت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرة فيها مائة دينار، قال: فاتيته بها , فقال لي: " عرفها حولا " , فعرفتها حولا , فما اجد من يعرفها , ثم اتيته بها , فقال: " عرفها حولا آخر " , فعرفتها , ثم اتيته بها , فقال: " عرفها حولا آخر " , وقال: " احص عدتها , ووعاءها , ووكاءها , فإن جاء طالبها فاخبرك بعدتها , ووعائها , ووكائها , فادفعها إليه , وإلا فاستمتع بها ". قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ , قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ , وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ , فَوَجَدْتُ سَوْطًا , قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا , فَأَخَذْتُهُ قَالَا: دَعْهُ , فَقُلْتُ: لَا أَدَعُهُ تَأْكُلْهُ السِّبَاعُ , لَآخُذَنَّهُ فَلَأَسْتَمْتِعَنَّ بِهِ , فَقَدِمْتُ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ وَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ، فقال: أحسنت وجدت على عهد رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ لِي: " عَرِّفْهَا حَوْلًا " , فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا , فَمَا أَجِدُ مَنْ يَعْرِفُهَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا حَوْلًا آخَرَ " , فَعَرَّفْتُهَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا , فَقَالَ: " عَرِّفْهَا حَوْلًا آخَرَ " , وَقَالَ: " أَحْصِ عِدَّتَهَا , وَوِعَاءَهَا , وَوِكَاءَهَا , فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَأَخْبَرَكَ بِعِدَّتِهَا , وَوِعَائِهَا , وَوِكَائِهَا , فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ , وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سو دینار تھے، اسے لے کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے فرمایا: ”ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ“، میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا، پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ“، میں نے اس کی پہچان کرائی، پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ تو آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ ۱؎“، اور فرمایا: ”اس کی گنتی کر لو، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کو خوب اچھی طرح پہچان لو اگر اسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد، اس کی تھیلی اور اس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 1 (2426)، صحیح مسلم/اللقطة 1 (1723)، سنن ابی داود/ اللقطة 1 (1701)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2506)، و مسند احمد (5/126) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشیہ میں دیکھئیے۔