(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا حماد بن زيد , عن ايوب , عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، " ان رجلا من الانصار اعتق ستة اعبد له عند موته , ولم يكن له مال غيرهم , فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له قولا شديدا , ثم دعاهم فجزاهم , ثم اقرع بينهم , فاعتق اثنين , وارق اربعة ". قال: وفي الباب , عن ابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث عمران بن حصين حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , وهو قول: مالك , والشافعي , واحمد , وإسحاق , يرون استعمال القرعة في هذا وفي غيره , واما بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم , فلم يروا القرعة , وقالوا: يعتق من كل عبد الثلث , ويستسعى في ثلثي قيمته , وابو المهلب اسمه: عبد الرحمن بن عمرو الجرمي وهو غير ابي قلابة , ويقال: معاوية بن عمرو , وابو قلابة الجرمي: اسمه عبد الله بن زيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، " أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ , وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ , فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِيدًا , ثُمَّ دَعَاهُمْ فَجَزَّأَهُمْ , ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ , فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ , وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , يَرَوْنَ اسْتِعْمَالَ الْقُرْعَةِ فِي هَذَا وَفِي غَيْرِهِ , وَأَمَّا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ , فَلَمْ يَرَوْا الْقُرْعَةَ , وَقَالُوا: يُعْتَقُ مِنْ كُلِّ عَبْدٍ الثُّلُثُ , وَيُسْتَسْعَى فِي ثُلُثَيْ قِيمَتِهِ , وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْجَرْمِيُّ وَهُوَ غَيْرُ أَبِي قِلَابَةَ , وَيُقَالُ: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو , وَأَبُو قِلَابَةَ الْجَرْمِيُّ: اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نے مرتے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا جبکہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے اس آدمی کو سخت بات کہی، پھر ان غلاموں کو بلایا اور دو دو کر کے ان کے تین حصے کئے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور جن (دو غلاموں) کے نام قرعہ نکلا ان کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمران بن حصین رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہ اور بھی سندوں سے عمران بن حصین سے مروی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ یہ اور اس طرح کے دوسرے مواقع پر قرعہ اندازی کو درست کہتے ہیں، ۵- اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم قرعہ اندازی کو جائز نہیں سمجھتے، اس موقع پر لوگ کہتے ہیں کہ ہر غلام سے ایک تہائی آزاد کیا جائے گا اور دو تہائی قیمت کی آزادی کے لیے کسب (کمائی) کرایا جائے گا۔