زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ
(گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”سال بھر اس کی پہچان کراؤ
۱؎، اگر کوئی پہچان بتا دے تو اسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے،
۳- یہ ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہو جائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہٰ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کر دے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
۶- لقطہٰ اٹھانے والا جب مالدار ہو تو یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،
۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مالدار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اور بہت مالدار تھے، پھر بھی نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔
(دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہٰ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے تو علی رضی الله عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی رضی الله عنہ کو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے
(سال بھر تک) اس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالانکہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،
۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہٰ معمولی ہو تو لقطہٰ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کا پہچان کروانا ضروری نہیں
۲؎،
۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینار سے کم ہو تو وہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،
۱۰- اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
● صحيح البخاري | 2428 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة |
● صحيح البخاري | 91 | زيد بن خالد | اعرف وكاءها أو قال وعاءها وعفاصها ثم عرفها سنة ثم استمتع بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الإبل فغضب حتى احمرت وجنتاه أو قال احمر وجهه فقال وما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وترعى الشجر فذرها حتى يلقاها ربها |
● صحيح البخاري | 6112 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إلي ضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه |
● صحيح البخاري | 2372 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها |
● صحيح البخاري | 2427 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم احفظ عفاصها ووكاءها فإن جاء أحد يخبرك بها وإلا فاستنفقها ضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فتمعر وجه النبي فقال ما لك ولها معها حذاؤها وسقاؤها ترد الماء وتأكل الشجر |
● صحيح البخاري | 2429 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها |
● صحيح البخاري | 2438 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن جاء أحد يخبرك بعفاصها ووكائها وإلا فاستنفق بها ضالة الإبل فتمعر وجهه وقال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر دعها حتى يجدها ربها ضالة الغنم فقال هي لك أو لأخيك أو للذئب |
● صحيح البخاري | 5292 | زيد بن خالد | ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فغضب واحمرت وجنتاه وقال ما لك ولها معها الحذاء والسقاء تشرب الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها اللقطة فقال اعرف وكاءها وعفاصها وعرفها سنة فإن جاء من يعرفها وإلا فاخلطها |
● صحيح البخاري | 2436 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه فضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله |
● صحيح مسلم | 4504 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن لم تعترف فاعرف عفاصها ووكاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فأدها إليه |
● صحيح مسلم | 4498 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها |
● صحيح مسلم | 4502 | زيد بن خالد | اعرف وكاءها وعفاصها ثم عرفها سنة فإن لم تعرف فاستنفقها ولتكن وديعة عندك فإن جاء طالبها يوما من الدهر فأدها إليه ضالة الإبل قال ما لك ولها دعها فإن معها حذاءها وسقاءها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يجدها ربها الشاة قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب |
● صحيح مسلم | 4499 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله |
● جامع الترمذي | 1372 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها ووعاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئ فضالة الإبل قال فغضب النبي حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه |
● جامع الترمذي | 1373 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن اعترفت فأدها وإلا فاعرف وعاءها وعفاصها ووكاءها وعددها ثم كلها فإذا جاء صاحبها فأدها |
● سنن أبي داود | 1704 | زيد بن خالد | عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ا ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فغضب رسول الله حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه وقال ما لك ولها |
● سنن أبي داود | 1706 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن جاء باغيها فأدها إليه وإلا فاعرف عفاصها ووكاءها ثم كلها فإن جاء باغيها فأدها إليه |
● سنن ابن ماجه | 2507 | زيد بن خالد | عرفها سنة فإن اعترفت فأدها فإن لم تعرف فاعرف عفاصها ووعاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فأدها إليه |
● سنن ابن ماجه | 2504 | زيد بن خالد | عن ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب وسئل عن اللقطة فقال اعرف عفاصها ووكاءها وعرفها سنة فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 527 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها |
● بلوغ المرام | 800 | زيد بن خالد | اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها |
● مسندالحميدي | 835 | زيد بن خالد | أعرف عفاصها ووعاءها ثم عرفها سنة، فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 91
´شاگردوں کے نامناسب سوالات پر استاد کی خفگی بجا تسلیم کی جائے گی`
«. . . قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ . . .»
”. . . اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 91]
� تشریح:
گری پڑی چیز کو لقطہ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں اسی کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے بارے میں سوال ہی بےکار تھا۔ جب کہ وہ تلف ہونے والا جانور نہیں۔ وہ جنگل میں اپنا چارہ پانی خود تلاش کر لیتا ہے، پھر اس کا پکڑنا بے کار ہے۔ خود اس کا مالک ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس تک پہنچ جائے گا، ہاں بکری کے تلف ہونے کا فوری خطرہ ہے لہٰذا اسے پکڑ لینا چاہئیے۔ پھر مالک آئے تو اس کے حوالہ کر دے۔ معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوالات پر استاد کی خفگی بجا تسلیم کی جائے گی۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر بھی غور کر لینا ضروری ہے۔ اونٹ سے متعلق آپ کا جواب اس زمانہ کے ماحول کے پیش نظر تھا مگر آج کل کا ماحول ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 91
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2427
2427. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے گری پڑی چیز کو اٹھانے کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سال بھر اس کی تشہیر کرو، پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو اچھی طرح پہچان لو، اگر کوئی آئے اور ٹھیک ٹھیک نشانی بتادے تو اس کے حوالے کردہ بصورت دیگر اسے اپنے مصرف میں لاؤ۔“ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! بھٹکی ہوئی بکری کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ”وہ تیرے لیے ہے یا تیرے کسی بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔“ پھر اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیاتو (غصے سے) نبی ﷺ کاچہرہ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور پانی کا مشکیزہ ہے۔ وہ چشموں سے خود پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2427]
حدیث حاشیہ:
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔
اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔
آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔
پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔
اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے (تو اسے اس کا مال واپس کر دے)
ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔
صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی (مالک)
کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔
صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔
آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔
(جن سے وہ چلے گا)
اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔
اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2427
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2428
2428. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق سوال ہواتو میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور بندھن کو خوب پہچان لو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو۔“ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں(کہ آپ نے یہ بھی فرمایا:)اگر اس کے مالک کا پتا نہ چلے تو جس کو وہ چیز ملی ہوا سے خرچ کرسکتا ہے، البتہ وہ چیز اس کے پاس امانت ہوگی۔ یحییٰ کہتے ہیں: مجھے علم نہیں کہ وہ(امانت کے الفاظ) رسول اللہ ﷺ کی بات کاحصہ ہیں یا یزید نے اپنی طرف سے کہے ہیں؟ پھر پوچھا: بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہوگی (جب اصل مالک نہ ملے) یا تمہارے کسی اور بھائی کی یاوہ بھیڑیے کی نذر ہے۔“ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں کہ بکری کا بھی اعلان کیاجاتا رہے۔ پھر پوچھا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، اس کے ساتھ اس کاجوتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2428]
حدیث حاشیہ:
یحییٰ کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فقرہ کہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوگا۔
حدیث میں داخل ہے۔
اس کو امام مسلم اور اسماعیلی نے نکالا۔
امانت کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کا مالک آجائے تو پانے والے کو یہ مال ادا کرنا لازم ہوگا۔
بکری اگر مل جائے تو اس کے بارے میں بھی اس کے مالک کا تلاش کرنا ضروری ہے۔
جب تک مالک نہ ملے پانے والا اپنے پاس رکھے اور اس کا دودھ پئے کیوں کہ ا س پر وہ کھلانے پر خرچ بھی کرے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2428
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2429
2429. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گری پڑی چیز کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ”اس کی ہتھیلی اور بندھن کو پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، اگر اس دوران میں اس کامالک آجائے تو بہتر، بصورت دیگر تجھے اختیار ہے۔“ اس نے پوچھا کہ بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی۔“ اس نے پھر دریافت کیا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ”تمھیں اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ہمراہ اس کا مشکیزہ اور جوتا ہے وہ پانی خود پی لے گا اور پتے کھالے گا، یہاں تک کہ اس کامالک اسے خود پالےگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2429]
حدیث حاشیہ:
فإن جاء صاحبها یعنی اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کر دے۔
جیسے ا مام احمد اور ترمذی اور نسائی کی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی گنتی اور تھیلی اور سر بندھن کو ٹھیک ٹھیک بتلا دے تو اس کو دے دے۔
معلوم ہوا کہ صحیح طور پر اسے پہچان لینے والے کو وہ مال دے دینا چاہئے۔
گواہ شاہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔
اس روایت میں دو سال تک بتلانے کا ذکر ہے۔
اور آگے والی احادیث میں صرف ایک سال تک کا بیان ہوا ہے۔
اور تمام علماءنے اب اسی کو اختیار کیا ہے اور دو سال والی روایت کے حکم کو ورع اور احتیاط پر محمول کیا۔
یوں محتاط حضرات اگر ساری عمر بھی اسے اپنے استعمال میں نہ لائیں اور آخر میں چل کر بطور صدقہ خیرات دے کر اسے ختم کر دیں تو اسے نور علی نور ہی کہنا مناسب ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2429
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5292
5292. یزید مولی منبعث سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گم شدہ بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑلو کیونکہ یا تو وہ تمہارے لیے ہے تمہارے بھائی تک پہنچ جائے گی یا پھر بھیڑ یے کے سپرد ہوگی۔“ اور آپ ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کے دوںوں رخسار سرخ ہو گئے آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ اس کے پاس اس کا جوتا ہے اور پانی کا مشکیزہ ہے پانی پیتا رہے گا اور درختوں سے چرتا رہے گا یہاں تک اس کا مالک اسی مل جائے گا۔“ گری پڑی رقم کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور سر بندھن پہچان لو اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے ہو، اگر اس کو پہچاننے والا کوئی آ جائے تو ٹھیک ہے، یعنی اسے دو بصورت دیگر اسے مال کے ساتھ ملا لو۔“ سفیان نے کہا: میں ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے ملا مگر ان سے سوائے اس حدیث کے مجھے اور کچھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5292]
حدیث حاشیہ:
یعنی اونٹ کے پکڑنے کی ضرورت ہے نہ اس کو کھانے پینے میں کسی کی مدد اور حفاظت کی ضرورت ہے نہ بھیڑیے کا ڈر ہے۔
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
بعضوں نے کہا اس حدیث سے یہ نکلا کہ دوسرے کے مال میں تصرف کرنا اس وقت جائز نہیں جب تک اس کے ضائع ہونے کا ڈر نہ ہو پس اسی طرح مفقود کی عورت میں بھی تصرف کرنا جائز نہیں جب تک اس کے خاوند کی موت متحقق نہ ہو۔
میں (وحیدالزماں مرحوم)
کہتا ہوں یہ قیاس صحیح نہیں ہے اور حضرت عمر، حضرت عثمان، ابن عمر، حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے باسانید صحیحہ مروی ہے، ان کو سعید بن منصور اور عبدالرزاق نے نکالا کہ مفقود کی عورت چار برس تک انتظار کرے۔
اگر اس عرصہ تک اس کی خبر نہ معلوم ہو تو اس کی عورت دوسرا نکاح کر لے اور ایک جماعت تابعین جیسے ابراہیم نخعی اور عطاء اورزہری اور مکحول اور شعبی اسی کے قائل ہوئے ہیں اورامام احمد اوراسحاق نے کہا اس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں۔
مدت اس کے واسطے ہے جو لڑائی میں گم ہو یا دریا میں اور حنفیہ اور شافعیہ نے کہا مفقود کی عورت اس وقت تک نکاح نہ کرے جب تک کہ خاوند کا زندہ یا مردہ ہونا ظاہر نہ ہو اور حنفیہ نے اس کی تقریر نوے برس یا سو برس یا 120 برس کی ہے اور دلیل لی ہے اس مرفوع حدیث سے کہ مفقود کی عورت اسی کی عورت ہے یہاں تک کہ حال کھلے۔
ابو عبیدہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اور عبدالرزاق نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا ہے مگر مرفوع حدیث ضعیف اور صحیح اس کا وقف ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت کی مدت منقول ہے اور علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے تو صحیح وہی چار سال کی مدت ہوئی اور اگر عورت کو حنفیہ یا شافعیہ یا حنابلہ کے مذہب کے موافق ادھر رکھا جائے تو اس میں صریح ضرر پہنچانا ہے پس قاضی مفقود کی عورت کا نکاح فسخ کر سکتا ہے جب دیکھے کہ عورت کو تکلیف ہے یا اس کو نان و نفقہ دینے والا کوئی نہیں اور حنفیہ اور شافعیہ اور حنابلہ کے مذہب کے موافق تو شاید ہی دنیا میں کوئی عورت نکلے جو ساری عمر بن شوہر کے عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے۔
اگر بالفرض بیٹھی بھی رہے تو پھر نوے سال یا سو سال یا 120 سال خاوند کی عمر ہونے پر یا اس کے ہم عمر مر جانے پر عورت کی عمر بھی تو نوے سال سے یااسی سال سے غالباً کم نہ رہے گی اور اس عمر میں نکاح کی اجازت دینا گویا عذر بد تر از گناہ ہے۔
ہماری شریعت میں نان نفقہ نہ دینے یا نا مردی کی وجہ سے جب نکاح کا فسخ جائز ہے تو مفقود بھی بطریق اولیٰ جائز ہونا چاہیئے اور تعجب یہ ہے کہ حنفیہ ایلاء میں یعنی چار مہینے تک عورت کے پاس نہ جانے کی قسم میں تو یہ حکم دیتے ہیں کہ چار مہینے گزرنے پر اس عورت کوا یک طلاق بائن پڑ جاتی ہے اور یہاں اس بیچاری عورت کی ساری جوانی برباد ہونے پر بھی ان کو رحم نہیں آتا۔
فرماتے ہیں کہ موت اقران کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
کیا خوب انصاف ہے اب اگر عورت دوسرا نکاح کر لے اس کے بعد پہلے خاوند کا حال معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے تو پہلے ہی خاوند کی عورت ہو گی اور شعبہ نے کہا دوسرے خاوند سے قاضی اس کو جدا کر دے گا وہ عدت پوری کر کے پھر پہلے خاوند کے پاس رہے۔
اگر پہلا خاوند مر جائے تو اس کی بھی عدت بیٹھے اور اس کی وارث بھی ہو گی۔
بعضوں نے کہا پہلا خاوند اگر آئے تو اس کو اختیار ہو گا چاہے اپنی عورت دوسرے خاوند سے چھین لے چاہے جو مہر عورت کو دیا ہو وہ اس سے وصول کر لیوے۔
میں (وحید الزماں)
کہتا ہوں اگر مفقود نے بلا عذر اپنا احوال مخفی رکھا تھا اورعورت کے لیے نان نفقہ کا انتظام نہیں کر کے گیا تھا۔
نہ کچھ جائیداد چھوڑ کر گیا تھا تو قیاس یہ ہے کہ وہ اپنی زوجہ کو دوسرے خاوند سے نہیں پھیر سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے خبر نہ بھیج سکا اور وہ اپنی زوجہ کے لیے نان نفقہ کی جائیداد چھوڑ گیا تھا یا بندوبست کر گیا تھا تب اس کو اختیار ہونا چاہیئے خواہ عورت پھیر لے، خواہ مہر وہ دوسرے خاوند سے لے لے۔
اور یہ قول گو جدید ہے اور اتفاق علماء کے خلاف ہے مگر مقتضائے انصاف ہے۔
واللہ أعلم (شرح مولانا وحیدالزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5292
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4498
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور بندھن کی شناخت کر لے، پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کر، اگر اس کا مالک آ جائے، (تو اس کو دے دے) وگرنہ اس سے فائدہ اٹھا۔“ تو اس نے پوچھا، گم شدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پکڑ لو گے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4498]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لقطه:
اہل لغت اور محدثین کے ہاں مشہور یہی ہے کہ (قاف)
پر زبر ہے،
لیکن عام طور پر اس کو ساکن پڑھا جاتا ہے،
گری پڑی چیز۔
(2)
عِفَاصَ:
وہ برتن یا تھیلی جس میں رقم رکھی جاتی ہے،
وِكا،
سررشتہ،
باندھنے کی دوڑی۔
(3)
فَشَأْنَكَ بِهَا:
پھر اپنی مرضی کرو،
جیسے چاہو کرو،
مقصد ہے،
استعمال کر سکتے ہو جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔
(4)
لَكَ،
أَوْ لِأَخِيكَ،
:
یعنی تم اس کو پکڑ سکتے ہو کیونکہ بکری کمزور جانور ہے،
اپنا دفاع اور تحفظ نہیں کر سکتا،
اس لیے محافظ کا محتاج ہے وگرنہ کوئی دوسرا پکڑے گا۔
(5)
فَضَالَّةُ:
گم شدہ جانور کو کہتے ہیں،
گم شدہ یا گرے پڑے سامان کو لقطه کہیں گے،
ضاله نہیں کہیں گے۔
(6)
مالك ولها،
تیرا اس سے تعلق نہیں،
وہ اپنا تحفظ اور دفاع کر سکتا ہے اور محافظ کے بغیرچرچگ سکتا ہے،
اس کے پیٹ میں چند دن کی پیاس بجھانے کے لیے پانی جمع ہوتا ہے،
جس کو اس کے سقا مشکیزہ کا نام دیا گیا ہے یا وہ خود بخود پانی کے گھاٹ پر پہنچ سکتا ہے اور اپنے پاؤں کی قوت یا بل بوتے پر طویل فاصلہ طے کر سکتا ہے،
بھیڑیے وغیرہ کا خطرہ نہیں ہے،
اس لیے تجھے پکڑنے کی ضرورت نہیں،
مالک خود اس کو تلاش کر لے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4498
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4499
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی ایک سال تک تشہیر کرو، پھر اس کے بندھن اور تھیلی کی پہچان کر لے، پھر اس کو خرچ کر لے پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کو اپنی طرف سے دے دے۔“ اس نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! تو گم شدہ بکری؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4499]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عرفها سنة:
تعریف و تشہیر ایسی جگہوں پر ہو گی اور جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور اس حدیث سے جمہور نے یہ استدلال کیا ہے کہ تشہیر،
ایک سال تک کرنا ضروری ہے،
لیکن اگر ملنے والی چیز معمولی ہو جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور مالک کو اس کی پروا نہیں ہوتی،
اس کی تشہیر کی ضرورت نہیں ہے،
اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے بقول ابن قدامہ اس پر اتفاق ہے،
امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جتنی چیز کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا،
اس کی تشہیر لازم نہیں ہے،
امام مالک کے نزدیک،
اس کی مقدار چوتھائی دینار ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک دس درہم،
(المغني،
ج 8 ص 296)
اور ایسی چیز جس کی مالک کو تلاش اور جستجو رہتی ہے،
اس کی تشہیر ضروری ہے اور سال کے بعد اگر مالک نہ آئے تو اس چیز کی پوری شناخت کے بعد اس کو اٹھانے والا اگر چاہے تو خرچ کر سکتا ہے،
جو رکھنے کے قابل ہو بعد میں اگر مالک آ جائے تو اس کو اس کی چیز مہیا کرنی ہو گی اور اس سے ثابت ہوتا ہے،
ایسا سامان ہی رکھا جا سکتا،
اٹھانے والا امیر ہے یا محتاج ہے،
اس میں حدیث کی رو سے کوئی فرق نہیں ہے،
امام احمد،
شافعی،
اسحاق،
شعبی،
نخعی،
عکرمہ اور طاؤس وغیرہم کا یہی نظریہ ہے،
حضرت علی،
عمر،
عائشہ،
ابن مسعود،
ابن عباس رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے،
لیکن امام مالک،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ صدقہ کر دے اور اگر بعد میں مالک آ جائے تو اس کو بتا دے،
اگر وہ صدقہ کرنے پر راضی ہو جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ اس کی جگہ اس کو تاوان ادا کرے،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر فقیر ہے تو پھر وہ استعمال کر سکتا ہے۔
(المغني،
ج 8،
ص 299)
فغضب رسول الله صلي الله عليه وسلم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس نے عقل و دانش سے کام نہیں لیا کہ وہی چیز پکڑی جا سکتی ہے،
جس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور اس دور میں اونٹ ایسا حیوان تھا،
جس کے ضیاع کا خطرہ نہیں تھا،
لیکن آج کل اس کا بھی خطرہ ہے کہ کہیں ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ آ جائے جو اس کو ہڑپ کر لیں یا ناراضی کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں اونٹ کی گمشدگی کا احتمال نہیں تھا،
اس لیے اس کا سوال بے موقع اور بے محل تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:91
91. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے گری ہوئی چیز کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ”اس کے بندھن یا برتن اور تھیلی کی پہچان رکھ اور ایک سال تک لوگوں سے پوچھتا رہ، پھر اس سے فائدہ اٹھا۔ اس دوران میں اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دے۔“ پھر اس شخص نے پوچھا کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ یہ سن کر آپ اس قدر غصے ہوئے کہ آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے، یا آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا (راوی کو شک ہے۔) اور فرمایا: ”تجھے اونٹ سے کیا غرض ہے؟ اس کی مشک اور اس کا موزہ اس کے ساتھ ہے، جب پانی پر پہنچے گا، پانی پی لے گا اور درخت سے چر لے گا، اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈ لے۔“ پھر اس شخص نے کہا: اچھا، گمشدہ بکری؟ آپ نے فرمایا: ”وہ تمہاری یا تمہارے بھائی (مالک) کی یا بھیڑیے کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:91]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کا ذکر ہے۔
اس کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے متعلق سوال کرنا ہی فضول اور بےمحل تھا۔
کیونکہ لقطہ کو اٹھا کر محفوظ کرلینے کا مقصد مال کو ضائع ہونے سے بچانا ہے، لیکن اونٹ کے ضیاع کا اندیشہ نہیں ہے کہ اسے حفاظت کے لیے پکڑا جائے۔
اونٹ بھوک، پیاس اور تھکن کی وجہ سے تو مرنہیں سکتا۔
اس کے ساتھ مشکیزہ ہے کئی دن تک پانی پیے بغیر گزارہ کر سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن اتنی اونچی بنائی ہے کہ اونچے درخت کے پتے بھی کھا سکتا ہے۔
اسے چلنے میں تھکن نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاؤں میں جوتا ہے۔
طاقتور اتنا ہے کہ کسی جانور کا لقمہ نہیں بن سکتا۔
ایسے حالات میں اسے پکڑنے کا کیا فائدہ؟ اگر سائل نے تدبر سے کام لیا ہوتا تو اس کے متعلق سوال نہ کرتا، اس لیے کہ اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے خود اس تک پہنچ جائےگا۔
ہاں! اگراونٹ ایسی جگہ نظر آئے جہاں ڈاکو یا چوررہتے ہوں یااس مقام پر خونخوار درندے ہوں تو ایسی صورت میں اندیشہ ہے کہ اگر اسے پکڑا نہ گیا توکوئی خونخوار درندہ پھاڑ کھائے گا یا کسی شرپسند کی بھینٹ چڑھ جائے گا اورمالک اس سے محروم ہوجائے گا، تو ایسے حالات میں اسے پکڑ لینا چاہیے۔
اونٹ کے متعلق آپ کا جواب زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماحول کے پیش نظر تھا مگرآج کل ماحول بہت بگڑا ہوا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوال کرنے پر استاد کی ناراضی بجا تسلیم کی جائے گی، اس لیے شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر غور کرلینا چاہیے۔
2۔
گرے پڑے سامان کو اٹھا کر بعد از تشہیر اس سے فائدہ اٹھانے کی دوصورتیں ہیں۔
(الف)
۔
اگر اٹھانے والا مال دار ہے تو کسی نادار کو صدقے کے طور پر دے کر ثواب کمائے۔
(ب)
۔
اگر خود غریب ہے تو مالک کی طرف سے اسے خود پر بطور صدقہ صرف کرے۔
دونوں صورتوں میں نیت یہ ہو کہ مالک کے آنے پر اگروہ صدقہ منظور نہ کرے تو مطالبے پر اس کی قیمت ادا کردوں گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز کو اٹھانے والا اس کا مالک نہیں بن جاتا بلکہ مالک کی طرف سے اس مال کا امین ہوجاتا ہے۔
اورامانت کااصول یہ ہے کہ مالک کے مطالبے پر اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔
اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب اللقطہ میں بیان کیے جائیں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 91
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2372
2372. حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر بصورت دیگر تم اس سے جو چاہو کرو۔“ اس نے کہا: اگر بھولی بھٹکی بکری ملے تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ”یا تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گے، یا تمھارےبھائی کا حصہ بنے گی یا بھیڑیے کا لقمہ ہو گی۔“ اس نے پھر دریافت کیا: اگر بھولا بھٹکا اونٹ ملے تو؟ آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟ اس کا مشکیزہ اور موزہ سب اس کے ساتھ ہے۔ وہ پانی پر پہنچ جائے گا اور درخت کے پتے کھا لے گا تاآنکہ اس کا مالک اس کو پالے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2372]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے بھولے بھٹکے اونٹ کو پکڑنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اسے بھوک اور پیاس کا ڈر نہیں ہوتا۔
وہ خود نہروں، چشموں اور برساتی نالوں پر جا سکتا ہے اور وہاں سے پانی پی سکتا ہے، اسے کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے۔
آخر اللہ تعالیٰ نے یہ وافر مقدار میں پانی انسانوں اور حیوانوں کے لیے پیدا کیا ہے، اس پانی کا اللہ کے سوا اور کوئی مالک نہیں۔
جب ان ندی نالوں سے حیوانات کے لیے پانی پینے کا جواز ثابت ہوا تو انسان جوان سے زیادہ ضرورت مند ہیں، ان کے لیے جواز تو بطریق اولیٰ ثابت ہو گا۔
بہرحال قدرتی چشموں، دریاؤں اور نالوں کا پانی کسی کے لیے مختص نہیں ہے اور ان سے پانی پینے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں۔
(2)
آج کل ایسے حیوانات کی حفاظت کے لیے مویشی خانے بنے ہوتے ہیں، آوارہ جانوروں کو وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔
مویشی خانے میں آوارہ جانور جتنے دن رہے گا اس کا مالک اس کے چارے اور پانی وغیرہ کے اخراجات ادا کر کے وہاں سے حاصل کرے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2372
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2427
2427. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے گری پڑی چیز کو اٹھانے کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سال بھر اس کی تشہیر کرو، پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو اچھی طرح پہچان لو، اگر کوئی آئے اور ٹھیک ٹھیک نشانی بتادے تو اس کے حوالے کردہ بصورت دیگر اسے اپنے مصرف میں لاؤ۔“ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! بھٹکی ہوئی بکری کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ”وہ تیرے لیے ہے یا تیرے کسی بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔“ پھر اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیاتو (غصے سے) نبی ﷺ کاچہرہ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور پانی کا مشکیزہ ہے۔ وہ چشموں سے خود پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2427]
حدیث حاشیہ:
(1)
اونٹ کو ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے۔
راستوں کے متعلق اونٹ بہت مہارت رکھتے ہیں۔
گم ہونے کی صورت میں عام طور پر وہ کسی نہ کسی دن گھر پہنچ جاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔
وہ خود جنگل کی جھاڑیوں میں چرے گا اور کسی چشمے سے پانی پی لے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے گا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حیوانات جو چھوٹے درندوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، مثلاً:
اونٹ، گھوڑا، گائے اور بیل وغیرہ یا اڑنے والے پرندے، انہیں پکڑنا جائز نہیں۔
(3)
ہمارے رجحان کے مطابق حدیث میں مذکور حکم جنگل کے لیے ہے۔
اگر کسی بستی میں اونٹ ملے تو اسے پکڑ لینا چاہیے تاکہ مسلمان کا مال ضائع نہ ہو اور وہ خود بھی کسی کی فصل خراب نہ کرے، پھر اسے نہ پکڑنے سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چور ڈاکو کے ہاتھ لگ جائے گا۔
دورِ حاضر میں تو کسی مقام پر امن نہیں، ہر جگہ چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں، اس بنا پر جہاں بھی کسی بھائی کا گمشدہ جانور ملے تو حفاظت کی غرض سے پکڑ لیا جائے یا اسے حکومت کے قائم کردہ کانجی ہاؤس میں پہنچا دیا جائے۔
مالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گمشدہ جانور کے متعلق کانجی ہاؤس سے رابطہ کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2427
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2428
2428. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق سوال ہواتو میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور بندھن کو خوب پہچان لو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو۔“ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں(کہ آپ نے یہ بھی فرمایا:)اگر اس کے مالک کا پتا نہ چلے تو جس کو وہ چیز ملی ہوا سے خرچ کرسکتا ہے، البتہ وہ چیز اس کے پاس امانت ہوگی۔ یحییٰ کہتے ہیں: مجھے علم نہیں کہ وہ(امانت کے الفاظ) رسول اللہ ﷺ کی بات کاحصہ ہیں یا یزید نے اپنی طرف سے کہے ہیں؟ پھر پوچھا: بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہوگی (جب اصل مالک نہ ملے) یا تمہارے کسی اور بھائی کی یاوہ بھیڑیے کی نذر ہے۔“ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں کہ بکری کا بھی اعلان کیاجاتا رہے۔ پھر پوچھا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، اس کے ساتھ اس کاجوتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2428]
حدیث حاشیہ:
(1)
بکری جو ریوڑ سے الگ ہو جائے اور ریوڑ میں شامل ہونے کا کوئی راستہ نہ پائے اور نہ اس کے مالک ہی کا پتہ چلے، ایسی بکری حفاظت کی محتاج ہے، بصورت دیگر کوئی بھیڑیا نما انسان یا حقیقی بھیڑیا دبوچ لے گا، اس طرح وہ ضائع ہو جائے گی۔
اس کی بھی تشہیر کی جائے، جب تک اس کا مالک نہ ملے پکڑنے والا اسے اپنے پاس رکھے اور اس کا دودھ وغیرہ پیتا رہے کیونکہ اس نے اس کے چارے کا بندوبست کیا ہے۔
آج کل بھٹکے ہوئے جانوروں کے لیے کانجی ہاؤس بنے ہوئے ہیں، انہیں وہاں پہنچا دیا جائے اور ان کا جو ضابطہ ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
(2)
راوئ حدیث کہتے ہیں:
”ایسا مال امانت ہو گا۔
“ اس فقرے کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے یا شیخ محترم یزید کی طرف سے اضافہ، لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ فقرہ حدیث کا حصہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمودہ ہے۔
(صحیح مسلم، اللقطة، حدیث: 4502(1722)
البتہ یہ ایسی امانت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2428
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2429
2429. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گری پڑی چیز کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ”اس کی ہتھیلی اور بندھن کو پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، اگر اس دوران میں اس کامالک آجائے تو بہتر، بصورت دیگر تجھے اختیار ہے۔“ اس نے پوچھا کہ بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی۔“ اس نے پھر دریافت کیا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ”تمھیں اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ہمراہ اس کا مشکیزہ اور جوتا ہے وہ پانی خود پی لے گا اور پتے کھالے گا، یہاں تک کہ اس کامالک اسے خود پالےگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2429]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ”تجھے اختیار ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ تیرے لیے اس میں تصرف کرنا جائز ہو گا، لیکن جب اس کا مالک مل جائے تو وہ چیز یا اس کا بدل دینا لازم ہو گا۔
(2)
اسلام نے گری پڑی اشیاء کی بڑی حفاظت کی ہے۔
ان کے اٹھانے والوں کو اسی صورت میں اٹھانے کی اجازت ہے کہ وہ انہیں اصل مالک تک لے جانے کی کوشش کریں۔
انہیں ہضم کرنے کے لیے ہرگز ہرگز نہ اٹھائیں۔
بعض ائمہ کا موقف ہے کہ اگر کوئی جنگل میں بھٹکی ہوئی بکری پائے اور تشہیر کے بعد اسے ذبح کر کے کھا لے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔
“ بھیڑیا اگر کھا جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے لیکن یہ موقف وزنی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھیڑیے کو اس کا مالک قرار نہیں دیا۔
سنن ابی داود میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اگر اس کا تلاش کرنے والا مل جائے تو اسے دے دو، اگر نہ ملے تو اس کے بیگ، بٹوہ اور بندھن کو پہچان لو، پھر اسے استعمال کر لو، اس کے بعد اگر مالک مل جائے تو اسے ادا کرو۔
“ (سنن أبي داود، اللقطة، حدیث: 1707،1706)
اس حدیث کے مطابق کھانے کی اجازت سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں اسے واپس کرنے کا حکم ہے۔
(فتح الباري: 106/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2429
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2436
2436. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی ایک سال تک تشہیر کرو، پھر اس کا بندھن اور تھیلی یاد کرلو، اس کے بعد اسے اپنے کسی مصرف میں خرچ کرلو، اگر اس کا مالک آجائے تو اسے واپس کردو۔“ سائل نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہے، یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آوارہ اونٹ کے متعلق کیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر غصے میں آگئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار یا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اونٹ سے تمھیں کیا کام؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے اس کا مالک جب آئے گا تو اسے لے لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2436]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس روایت میں ”امانت“ کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم پہلے وہ حدیث بیان ہو چکی ہے کہ گمشدہ چیز اس کے پاس امانت ہو گی۔
(صحیح البخاري، اللقطة، حدیث: 2428)
وہاں راوئ حدیث نے شک کا اظہار کیا تھا کہ یہ الفاظ میرے شیخ کی طرف سے ہیں یا حدیث کا حصہ ہیں، اس کے متعلق مجھے پوری طرح علم نہیں ہے لیکن صحیح مسلم میں یہ الفاظ بغیر کسی شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے حصے کے طور پر بیان ہوئے ہیں، (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث: 4502(1722)
نیز اس میں صراحت ہے کہ اگر گمشدہ چیز کا مالک اور طلبگار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنی ہو گی۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مسلک یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ چیز اٹھانے والے سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ امانت کے ضیاع پر تاوان نہیں دیا جاتا، ہاں اس نے استعمال کر لی ہے تو اس کا بدل دینا ہو گا۔
(فتح الباري: 114/5)
اس صورت میں گمشدہ چیز کا بدل واپس کرنا احسان نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2436
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2438
2438. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی ایک سال کی تشہیر کر۔ اگر کوئی آئے اور اس کی تھیلی اور بندھن کے بارے میں ٹھیک ٹھیک نشاندہی کردے تو اس کے حوالے کردے، بصورت دیگر اسے خرچ کرلے۔“ پھر اس نے آوارہ اونٹ کے متعلق پوچھا تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ”اونٹ سے تجھے کیا تعلق؟ اس کا مشکیزہ اور جوتا اس کے ساتھ ہے۔ وہ خود چشمے پر جاکر پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔ اُسے چھوڑ حتی کہ اس کامالک اسے پالے۔“ پھر اس نے بھٹکی بکری کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”وہ تیرے لیے ہے، یاتیرے بھائی کے لیے یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2438]
حدیث حاشیہ:
(1)
گری پڑی چیز کے متعلق امام اوزاعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر معمولی قیمت کی ہے تو اس کی تشہیر کی جائے اور اگر بیش بہا قیمت کی ہے تو اسے بیت المال میں جمع کرا دے۔
امام بخاری ؒ اس موقف کے خلاف ہیں کہ کسی صورت میں گمشدہ چیز کو بیت المال میں جمع نہ کیا جائے بلکہ خود اس کی تشہیر کرے۔
(2)
ممکن ہے امام بخاری ؒ کا یہ موقف ہو کہ گمشدہ چیز حکومت وقت کے حوالے کرنا ضروری نہیں بلکہ لوگ اپنے طور پر اس کا کوئی حل نکالیں۔
اگر وہ مناسب خیال کریں کہ حکومت بہتر طریقے سے اس کی تشہیر کر سکتی ہے تو وہ چیز حکومت کے حوالے کی جا سکتی ہے، البتہ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا صحیح نہیں۔
بہرحال گری پڑی چیز جہاں ملے وہاں کے بازاروں، مساجد کے دروازوں، لوگوں کے اجتماعات، پبلک مقامات، مثلاً:
ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، جنرل بس اسٹینڈ، گراؤنڈ وغیرہ میں اس طرح اعلان کیا جائے کہ جس کسی کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو وہ نشانی بتا کر لے جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2438
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5292
5292. یزید مولی منبعث سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گم شدہ بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑلو کیونکہ یا تو وہ تمہارے لیے ہے تمہارے بھائی تک پہنچ جائے گی یا پھر بھیڑ یے کے سپرد ہوگی۔“ اور آپ ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کے دوںوں رخسار سرخ ہو گئے آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ اس کے پاس اس کا جوتا ہے اور پانی کا مشکیزہ ہے پانی پیتا رہے گا اور درختوں سے چرتا رہے گا یہاں تک اس کا مالک اسی مل جائے گا۔“ گری پڑی رقم کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور سر بندھن پہچان لو اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے ہو، اگر اس کو پہچاننے والا کوئی آ جائے تو ٹھیک ہے، یعنی اسے دو بصورت دیگر اسے مال کے ساتھ ملا لو۔“ سفیان نے کہا: میں ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے ملا مگر ان سے سوائے اس حدیث کے مجھے اور کچھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5292]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کے رجحان کا پتا چلتا ہے کہ زوجۂ مفقود کے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ گم شدہ خاوند کا حال بھی گم شدہ چیز کی طرح ہے کہ بذریعۂ عدالت سال بھر اس کا اعلان کیا جائے۔
واضح رہے کہ ایک سال انتظار کا حکم عدالت اس صورت میں دے گی جب عورت کے پاس اس مدت کے اخراجات موجود ہوں، بصورت دیگر عدالت بوجہ عدم موجودگی نفقہ فی الفور نکاح فسخ کر سکتی ہے۔
اب اگر دوران مدت یا دوران عدت میں اس کا خاوند آ جائے تو اسے اس کی بیوی مل جائے گی۔
اگر نکاح ثانی کر لینے کے بعد پہلا خاوند آیا تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔
(2)
یہ بھی واضح رہے کہ تفتیش کے اخراجات بھی عورت کے ذمے ہیں بشرطیکہ وہ صاحب حیثیت ہو بصورت دیگر بیت المال تفتیش کے اخراجات برداشت کرے۔
اگر بیت المال موجود نہ ہو تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس ستم زدہ عورت کے لیے تعاون کریں اور تفتیش پر اٹھنے والے اخراجات کا بندوبست کریں۔
اگر عدالت اس معاملے کو بلا وجہ طول دے اور عورت میں مزید صبر کی ہمت نہ ہو تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کرے اور فیصلہ دے تو ان کا فیصلہ بھی عدالت ہی کا فیصلہ ہوگا۔
واللہ اعلم. (3)
اس موقف پر ہم مولانا وحید الزمان کا موقف بھی پیش کرتے ہیں، وہ بھی قابل غور معلوم ہوتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
اگر مفقود نے بلا عذر اپنے حالات مخفی رکھے اور عدالت کے لیے کسی قسم کے اخراجات کا بندوبست نہ کیا گیا تھا اور نہ کوئی جائیداد ہی چھوڑی تو قیاس کا تقاضا ہے کہ وہ واپس آنے کے بعد دوسرے خاوند سے نہیں لے سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکا اور اپنی بیوی کے لیے اخراجات کا بندوبست کر گیا تھا یا کوئی معقول جائیداد چھوڑ گیا تھا تو اسے اختیار ہونا چاہیے، خواہ اپنی عورت لے لے، خواہ دوسرے خاوند سے حق مہر وصول کرے جو اس نے اپنی بیوی کو دیا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5292
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6112
6112. حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے گم شدہ چیز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اس کا ایک سال تک اعلان کرو، پھر اس کے سر بندھن اور توشہ دان کی پہچان رکھو اور اسے استعمال کر لو۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ چیز اسے واپس کر دو۔“ پھر اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑلو۔ وہ تمہارے لیے ہے یا تمہارے بھائی کے لیے یا پھر بھیڑیے کے لیے ہوگی۔“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! گم شدہ اونٹ کے متعلق کیا فرمان ہے؟ رسول اللہ ﷺ اس سوال پر اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے رخسار سرخ ہو گئے یا آپ کا چہرہ انور سرخ ہو گیا پھر آپ نے فرمایا: ”تمہیں اس اونٹ سے کیا غرض ہے؟ اس کے ساتھ اس کی جوتی ہے اور پانی کا مشکیزہ ہے کبھی نہ کبھی اس کا مالک اس کو پالے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6112]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ناراض ہوئے کہ سائل کا سوال بے محل تھا۔
اونٹ کے متعلق اسے سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اسے چور کے پکڑنے یا کسی درندے کے کھانے کا وہاں کوئی خطرہ نہ تھا۔
(2)
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ کے متعلق مذکورہ فرمان اس وقت کے پرامن حالات کے مطابق ہے، لیکن آج کل حالات یکسر بدل گئے ہیں، چور ڈاکو کو گلی کوچوں میں دندناتے پھرتے ہیں، ایسے حالات میں اگر اونٹ کو کھلا چھوڑ دیا جائے گا تو ان کے ہتھے چڑھ جائے گا، لہذا گم شدہ اونٹ کو باندھ لیا جائے حتی کہ اس کا مالک آئے اور اسے بحفاظت لے جائے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6112