كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے 22. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَالِدَ يَأْخُذُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ باب: باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے عمارہ بن عمیر سے اور عمارہ نے اپنی ماں سے اور ان کی ماں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے، لیکن اکثر راویوں نے «عن أمّه» کے بجائے «عن عمته» کہا ہے یعنی عمارہ بن عمیر نے اپنی پھوپھی سے اور انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ کو بیٹے کے مال میں کلی اختیار ہے وہ جتنا چاہے لے سکتا ہے، ۵- اور بعض کہتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بوقت ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 79 (3528)، سنن النسائی/البیوع 1 (4454)، سنن ابن ماجہ/التجارات 1 (2137)، (تحفة الأشراف: 17992)، و مسند احمد (6/31، 42، 127، 162، 193، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے، «أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ» یعنی ”تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے“ (سنن ابی داود رقم: ۳۵۳۰/صحیح) اس میں بھی عموم ہے، ضرورت کی قید نہیں ہے، اور عائشہ رضی الله عنہا کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم: ۳۵۲۹) جو «إذا احتجتم» ”جب تم ضرورت مند ہو“ کی ”زیادتی“ ہے وہ بقول ابوداؤد ”منکر“ ہے، لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتے کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے، اس سے حدیث کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں، صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ «واللہ اعلم» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2137)
|