سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
The Chapters On Judgements From The Messenger of Allah
11. باب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ عَلَى مَنْ يُقْضَى لَهُ بِشَيْءٍ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَهُ
باب: قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Severe Threat For One Who Is Awarded A Judgement For Something That Is Not His To Take
حدیث نمبر: 1339
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم تختصمون إلي وإنما انا بشر، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، فإن قضيت لاحد منكم بشيء من حق اخيه، فإنما اقطع له قطعة من النار فلا ياخذ منه شيئا ". قال: وفي الباب، عن ابي هريرة، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ام سلمة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنْ قَضَيْتُ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 16 (2498)، والشہادات 27 (2680)، والحیل 10 (6967)، والأحکام 20 (7169)، و 29 (7181)، و3 (7185)، صحیح مسلم/الأقضیة 3 (1713)، سنن ابی داود/ الأقضیة 7 (3583)، سنن النسائی/القضاة 13 (5403)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 5 (2317)، (تحفة الأشراف: 18261)، وط/الأقضیة 1 (1)، و مسند احمد (6/307، 320) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کر سکتا ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا، اور نفس الامر میں نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام، جمہور کی یہی رائے ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجود یہ کہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2317)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.