كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 19. باب مَا جَاءَ فِي إِكْرَاهِ الْيَتِيمَةِ عَلَى التَّزْوِيجِ باب: یتیم لڑکی کو شادی کرنے پر مجبور کرنے کی ممانعت۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یتیم لڑکی سے اس کی رضا مندی حاصل کی جائے گی، اگر وہ خاموش رہی تو یہی اس کی رضا مندی ہے، اور اگر اس نے انکار کیا تو اس پر (زبردستی کرنے کا) کوئی جواز نہیں“۔
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوموسیٰ، ابن عمر، اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یتیم لڑکی کی شادی کے سلسلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے: یتیم لڑکی کی جب شادی کر دی جائے تو نکاح موقوف رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔ جب وہ بالغ ہو جائے گی، تو اسے نکاح کو باقی رکھنے یا اسے فسخ کر دینے کا اختیار ہو گا۔ یہی بعض تابعین اور دیگر علماء کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض کہتے ہیں: یتیم لڑکی کا نکاح جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے، درست نہیں اور نکاح میں «خیار» جائز نہیں، اور اہل علم میں سے سفیان ثوری، شافعی وغیرہم کا یہی قول ہے، ۵- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی نو سال کی ہو جائے اور اس کا نکاح کر دیا جائے، اور وہ اس پر راضی ہو تو نکاح درست ہے اور بالغ ہونے کے بعد اسے اختیار نہیں ہو گا۔ ان دونوں نے عائشہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے ساتھ شب زفاف منائی، تو وہ نو برس کی تھیں۔ اور عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ لڑکی جب نو برس کی ہو جائے تو وہ عورت ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15045) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ النکاح 24 (2093)، سنن النسائی/النکاح 36 (3270)، مسند احمد (2/259، 475) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: یعنی بالغ ہونے کے بعد انکار کرنے پر۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (1834)، صحيح أبي داود (1825)
|