كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 28. باب مَا جَاءَ فِي الْمُحِلِّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ باب: حلالہ کرنے اور کرانے والے پر وارد وعید کا بیان۔
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔
۱- علی اور جابر رضی الله عنہما کی حدیث معلول ہے، ۲- اسی طرح اشعث بن عبدالرحمٰن نے بسند «مجالد عن عامر هو الشعبي عن الحارث عن علي» روایت کی ہے۔ اور عامر الشعبی نے بسند «جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجالد بن سعید کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے۔ انہی میں سے احمد بن حنبل ہیں، ۴- نیز عبداللہ بن نمیر نے اس حدیث کو بسند «مجالد عن عامر عن جابر بن عبد الله عن علي» روایت کی ہے، اس میں ابن نمیر کو وہم ہوا ہے۔ پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے، ۵- اور اسے مغیرہ، ابن ابی خالد اور کئی اور لوگوں نے بسند «الشعبی عن الحارث عن علی» روایت کی ہے، ۶- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف من حدیث جابر، ومن حدیث علی أخرجہ کل من: سنن ابی داود/ النکاح 16 (2076)، سنن ابن ماجہ/النکاح 33 (1934)، (تحفة الأشراف: 2348و10034)، مسند احمد (1/87) (صحیح) شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ جابر کی حدیث میں ”مجاہد“ اور علی رضی الله عنہ کی حدیث میں ”حارث اعور“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: «محلل» وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے، اور «محلل لہ» سے پہلا شوہر مراد ہے جس نے تین طلاقیں دی ہیں، اور طریقہ سے اپنی عورت سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے یہ حدیث دلیل ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح باطل اور حرام ہے کیونکہ لعنت حرام فعل ہی پر کی جاتی ہے، جمہور اس کی حرمت کے قائل ہیں، حنفیہ اسے جائز کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1535)
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی اور طرق سے بھی روایت کی گئی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جن میں عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمر وغیرہم رضی الله عنہم بھی شامل ہیں۔ یہی تابعین میں سے فقہاء کا بھی قول ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، وکیع نے بھی یہی کہا ہے، ۴- نیز وکیع کہتے ہیں: اصحاب رائے کے قول کو پھینک دینا ہی مناسب ہو گا ۱؎، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلوم ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطلاق 13 (3445)، (في سیاق طویل) (تحفة الأشراف: 9595)، مسند احمد (1/448، 450، 451، 462)، سنن الدارمی/النکاح 53 (2304) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اصحاب الرائے سے مراد امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گو حلال کرنے کی ہی نیت سے ہو۔ ان کی رائے کو چھوڑ دینا اس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (1119)
|