كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 27. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فَيَتَزَوَّجُهَا آخَرُ فَيُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا باب: آدمی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر اس سے کوئی اور شادی کر کے دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے حکم کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں“ ۲؎۔
۱- ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، انس، رمیصاء، یا غمیصاء اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر وہ کسی اور سے شادی کر لے اور وہ دوسرا شخص دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کر لیا ہو۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشہادات 3 (2639)، صحیح مسلم/النکاح 17 (1433)، سنن النسائی/النکاح 43 (3285)، والطلاق 12 (3440)، (تحفة الأشراف: 16436)، مسند احمد 6/37)، سنن الدارمی/الطلاق 4 (2313) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الطلاق 4 (526)، و7 (5265)، و37 (5317) واللباس 6 5792)، والأدب 68 (6084)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن النسائی/الطلاق 9 (3437)، و 10 (2438)، من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1934)
|