سنن نسائي
كتاب قطع السارق
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
5. بَابُ : مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لاَ يَكُونُ
باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟
حدیث نمبر: 4890
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَعَافَوْا الْحُدُودَ فِيمَا بَيْنَكُمْ، فَمَا بَلَغَنِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، جب حد کی کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (4889) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 358
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4890 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4890
اردو حاشہ:
مذکورہ بالا دونوں روایات کو محقق کتاب نے ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے کہا کہ یہ روایات شواہد کی بنا پر صحیح ہیں۔ سلسلہ صحیحہ میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے ابن مسعود ؓ کی روایت ذکر کی ہے جو اسی مفہوم کی ہے۔ دیکھیے: (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1638) اس لیے راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات قابل استدلال ہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4890
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4376
´حاکم تک پہنچنے سے پہلے حد کو نظر انداز کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو آپس میں نظر انداز کرو، جب حد میں سے کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی“ (اسے معاف نہیں کیا جا سکتا)۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4376]
فوائد ومسائل:
1۔
یہ روایت سندا ضعیف ہے، تاہم یہ حدیث معنوی شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے تحقیق میں اس بات کا اظہار کیا ہے۔
دیکھیے حدیث ھٰذا کی تخریج وتحقیق۔
2۔
قاضی اور حاکم کو قطعا روا نہیں کہ حدود شرعیہ کی تنفیذ میں ٹال مٹول سے کام لے۔
3۔
خود مجرم یا اس کو دیکھنے والے گواہوں پرواجب نہیں کہ یہ معاملہ قاضی تک پہنچائیں۔
اگر معاملہ قابل ستر اور قابل معافی ہو تو اس اعتماد پرکہ مرتکب جرم آئندہ محتاط رہے گا، اس سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4376