سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
5. بَابُ : مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لاَ يَكُونُ
5. باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟
Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place
حدیث نمبر: 4891
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: انبانا معمر، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما:" ان امراة مخزومية كانت تستعير المتاع، فتجحده، فامر النبي صلى الله عليه وسلم بقطع يدها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنَّ امْرَأَةً مَخْزُومِيَّةً كَانَتْ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ، فَتَجْحَدُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: عاریت (روزمرہ برتے جانے والے سامانوں کی منگنی) کے انکار کر دینے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخزومیہ عورت کا ہاتھ کاٹ دیا، اس سے بعض علماء عاریت کے انکار کو بھی چوری مانتے ہیں۔ (اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو چوری سے تعبیر فرمایا) اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عاریت کے انکار پر آپ نے اس لیے ہاتھ کاٹا کہ ایسا نہ ہو کہ عاریت دینے کا چلن ہی سماج اور معاشرے سے ختم ہو جائے تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ بہرحال عاریت کے انکار پر ہاتھ کاٹنا ثابت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 15 (4395)، (تحفة الأشراف: 7549) مسند احمد (2/151) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4891 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4891  
اردو حاشہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص عاریتا کوئی چیز لے کر انکار کردے جب کہ گواہ موجود ہوں تو اسے چور سمجھ کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ امام احمد اور اسحاق وغیرہ کا موقف ہے کیونکہ یہ بھی چوری کی ایک قسم ہے بلکہ اس کا نقصان معاشرے کے لیے زیادہ ہے کیونکہ اگر اس پر سزا نہ دی جائے تو لوگ عاریتا چیزیں دینے سے انکار کردیں گے جس سے غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی چوری کے ساتھ مشابہت ہے کہ یہ بھی حیلے کے ساتھ لوگوں کے مال محفوظ کو اڑانا ہے اور چوری میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، لہذا اس جرم پر بھی چوری والی سزا دی جائے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ شرعا اس بات کے مجاز ہیں کہ شرعی اطلاقات کی وضاحت فرمائیں اس لیے بعض محدثین اس جرم پر بھی ہاتھ کاٹنے کے قائل ہیں جب کہ جمہور اہل علم اس کے قائل نہیں بلکہ صرف چوری پر قطع ید نافذ کرتے ہیں۔ اس حدیث کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ آپ نے اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا بلکہ چوری پر کاٹا تھا جیسا کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ اس نے چوری کی تھی۔ یہ جرم تو اس کی مزید مذمت کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر روایات وطرق میں بصراحت چوری پر قطع کا ذکر موجود ہے پھر واقعہ بھی ایک دفعہ ہی پیش آیا ہے اس لیے راجح موقف جمہور ہی کا ہے کہ قطع ید صرف چوری پر ہوگا۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4891   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.