كتاب الوصايا کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 1. بَابُ: الْكَرَاهِيَةِ فِي تَأْخِيرِ الْوَصِيَّةِ باب: وصیت میں تاخیر مکروہ اور ناپسندیدہ کام ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ اجر و ثواب میں سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا اس وقت صدقہ کرنا جب تندرست اور صحت مند ہو، تمہیں مال جمع کرنے کی حرص ہو، محتاج ہو جانے کا ڈر ہو اور تمہیں لمبی مدت تک زندہ رہنے کی امید ہو اور صدقہ کرنے میں جان نکلنے کے وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے تو کہو: فلاں کو اتنا دے دو، حالانکہ اب تو وہ فلاں ہی کا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2543 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مرتے وقت صدقہ دینے میں زیادہ ثواب نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کون شخص ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پسند ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر شخص کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمجھو اس بات کو، تم میں سے ہر شخص کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز و محبوب ہے، تمہارا مال تو وہ ہے جو تم نے (مرنے سے پہلے اپنی آخرت میں کام آنے کے لیے) آگے بھیج دیا اور تمہارے وارث کا مال وہ ہے جو تم نے (مرنے کے بعد) اپنے پیچھے چھوڑ دیا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 12 (6442)، (تحفة الأشراف: 9192)، مسند احمد (1/382) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اپنی زندگی ہی میں کسی کو دے دلا دینا زیادہ بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «ألهاكم التكاثر * حتى زرتم المقابر» (کثرت و زیادتی) کی چاہت نے تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے“ آپ نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال کہتا ہے؟ (لیکن حقیقت میں) تمہارا مال تو صرف وہ ہے جو تم نے کھا (پی) کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ اور پرانا کر دیا یا صدقہ کر کے اسے آخرت کے لیے آگے بھیج دیا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2958)، سنن الترمذی/الحج 31 (2342)، تفسیر اتکاتر 49 (3354)، (تحفة الأشراف: 5346)، مسند احمد (4/24، 26) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کچھ دینار اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی۔ تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنی موت کے وقت غلام آزاد کرتا ہے یا صدقہ و خیرات دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص پیٹ بھر کھا لینے کے بعد (بچا ہوا) کسی کو ہدیہ دیدے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/العتق 15 (3968)، مختصراً سنن الترمذی/الوصایا 7 (2123) مطولا، (تحفة الأشراف: 10970)، مسند احمد (5/196، 197و6/447) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابو حبیبہ‘‘ لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: تو جیسے اس ہدیہ کا کوئی خاص ثواب اور اہمیت نہیں ہے ایسے ہی مرتے وقت غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، دے تو اس وقت دے جب خود کو بھی اس کی احتیاج اور ضرورت ہو۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ضروری ہو مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی گزارے جس میں اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8085) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان شخص کو جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے بارے میں اسے وصیت کرنی ہو یہ حق نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 1 (2738)، (تحفة الأشراف: 8382)، موطا امام مالک/الوصایا 1 (1)، مسند احمد (2/113) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے یہ ابن عمر سے موقوفاً روایت ہے (یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 7751)، مسند احمد (2/10) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کی تین راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کے اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو“۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے اس وقت سے ہمیشہ میری وصیت میرے پاس رہتی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 1 (1627م)، (تحفة الأشراف: 7000) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں وصیت کرنی ضروری ہو پھر بھی وہ تین راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 1 (1627)، (تحفة الأشراف: 6896) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجب حق ہو جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض اور امانت وغیرہ تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ وصیت کرے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|