(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا الفضيل، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما حق امرئ مسلم له شيء يوصى فيه ان يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصَى فِيهِ أَنْ يَبِيتَ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ضروری ہو مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی گزارے جس میں اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3645
اردو حاشہ: (1) کیونکہ زندگی کا کوئی یقین نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ لہٰذا مطلوب وصیت فوراً کرنی چاہیے‘ نیز وصیت پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے۔ وصیت بھی تحریری ہونی چاہیے تاکہ اختلاف نہ ہو۔ دو راتوں کے ذِکر سے ظاہراً سمجھ میں آتا ہے کہ ایک رات کی تاخیر کرسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ممکن ہے دو کا ذکر اتفاقاً ہو جیسا کہ آئندہ کسی حدیث میں تین کا بھی ذکر ہے۔ گویا بلاضرورت ایک رات کی تاخیر بھی جائز نہیں۔ (2) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے‘ صرف اس شخص کے لیے واجب ہے جس کے ذمے حقوق ہوں‘ مثلاً: فرض‘ امانت وغیرہ‘ تاہم مستحب ضرور ہے
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3645
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 388
´وصیت کا وجوب منسوخ ہے` «. . . 249- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته عنده مكتوبة.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی مسلمان کے پاس وصیت والی کوئی چیز ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے پاس لکھنے (یا لکھوانے) کے بغیر دو راتیں بھی گزارے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 388]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2738، ومسلم 1627، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اس حدیث سے وصیت کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسری صحیح حدیث نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فلا وصیة لوارث» پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔ [سنن الترمذي: 2120 وسنده حسن وقال الترمذي: ”هذا حديث حسن“ ورواه ابوداود: 2870 وابن ماجه: 2713] ➋ جو شخص وارثوں کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں ثلث (ایک تہائی) میں سے وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لکھنے میں جلدی کرے۔ اس جلدی کے مستحب ہونے پر اجماع ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/292] ➌ قرآن مجید میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں وصیت کا حکم ہے جسے «لا وصية لوارث» والی حدیث نے منسوخ کردیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حدیث کے ساتھ نسخِ قرآن جائز ہے۔ ➍ اگر کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کے بارے میں وصیت لکھ دے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 249
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 818
´وصیتوں کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کو وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر دو راتیں بھی اسی حالت میں گزار دے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 818»
تخریج: «أخرجه البخاري، الوصايا، باب الوصايا....، حديث:2738، ومسلم، الوصية، حديث:1627.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وصیت ہر وقت تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔ 2.آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا ہر ایک کے لیے ضروری اور لازمی تھا لیکن جب میراث کی آیت نازل ہوئی تو یہ وصیت ختم ہوگئی‘ یعنی جن کے حصے قرآن میں متعین و مقرر کر دیے گئے ہیں ان کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں‘ البتہ میراث کے علاوہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے‘ مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کی میراث ختم ہے مگر اس کی تعلیم و تربیت‘ نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے تہائی مال کی وصیت کی جا سکتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 818
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2862
´وصیت کرنے کی تاکید کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2862]
فوائد ومسائل: حدیث میں (يبيت ليلتين)سے مراد یہ ہے کہ اسے وصیت لکھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ تحدید مراد نہیں ہے۔ کیوکہ مسند ابی عوانۃ اور السنن کبریٰ للبیقی میں (ليلة او ليلتين)ایک ر ات یا دو راتوں کا زکر ہے۔ صحیح مسلم اور سنن نسائی میں (ثلاث لیال) تین راتوں کازکر بھی ملتاہے۔ بہرحال انسان کو اپنی موت سے کبھی غافل نہیں ہوناچاہیے۔ نہ معلوم کس وقت بلاوا آجائے۔ لہذا اگر کوئی قرض ہو یا امانت یا کوئی اور اہم معاملہ تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاں لکھ رکھے۔ تاکہ وارثوں کو اس کی تنفیذ میں آسانی رہے۔ اورحقوق کے معاملے میں مرنے والے پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے۔ اس صورت میں یہ امرواجب ہے۔ لیکن اگرکوئی حق واجب نہ ہو تو وصیت کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔ جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہاہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2862
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2699
´وصیت کی ترغیب۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2699]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) وصیت ایسی چیز ہے کہ ا س کا فائدہ اور ثواب مرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، جب وصیت پر عمل کیا جاتا ہے۔
(2) انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، ممکن ہے بندے کو اس حال میں موت آئے کہ اسے وصیت کرنے کا موقع نہ ملے، اس لیے بہتر ہے کہ وصیت ہر وقت تیار رکھی جائے۔
(3) پہلے سے وصیت لکھ رکھنے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان اس میں حسب خواہش تبدیلی کرسکتا ہے۔
(4) قرض اور امانت وغیرہ کی تفصیل ہمیشہ لکھ کر رکھنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2699
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2118
´وصیت کی ترغیب کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو یہ اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2118]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا لازمی اور ضروری تھا، لیکن اس آیت کے نزول کے بعد ورثاء کے حصے متعین ہوگئے اس لیے ورثاء سے متعلق وصیت کا سلسلہ بند ہوگیا، البتہ ان کے علاوہ کے لیے تہائی مال میں وصیت کی جا سکتی ہے، اور یہ وصیت اس حدیث کی روشنی میں تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2118
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4204
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے لائق چیز ہو، جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے درست نہیں ہے کہ وصیت لکھے بغیر دو راتیں بسر کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4204]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ما حق امري، يعني لا يحق له، اس کے لیے درست اور صحیح رویہ نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس وصیت لکھ کر نہ رکھے۔ فوائد ومسائل: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی کے پاس وصیت کے قابل چیز موجود ہو، اس پر قرضہ ہو، کسی کی امانت ہو، یا کوئی اور لازم چیز ہو، جس کو اب وہ خود ادا نہیں کر سکتا، تو اس پر اس صورت میں وصیت کرنا لازم ہے، مثلا اس کے ذمہ روزے رہتے ہیں، حج کرنا لازم ہے، لیکن کر نہیں سکتا ہے، کسی غیر وارث کے حق میں وصیت کرنے کی ضرورت ہے، مثلا اس کے پوتے، پوتیاں ہیں، جو اپنے چچاؤں کی موجودگی میں وارث نہیں بن سکتے، ان ضروری صورتوں کے بغیر جمہور کے نزدیک جس میں ائمہ اربعہ داخل ہیں، وصیت ضروری نہیں ہے، لیکن امام داؤد اور بعض تابعین کے نزدیک، غیر وارث، رشتہ داروں کے حق میں ہر صورت میں وصیت کرنا فرض ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4204
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4207
حضرت سالم اپنے باپ (ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس قابل وصیت چیز ہو، اور وہ تین راتیں وصیت اپنے پاس لکھے بغیر بسر کرے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں، جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان سنا ہے، میں نے ایک رات بھی وصیت کی تحریر کے بغیر نہیں گزاری۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4207]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی وصیت کو اپنی زندگی میں ہی جامہ عمل پہنا دیا تھا، اس لیے موت کے وقت انہیں اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ (فتح الباري، ج 5، ص 441، مکتبة دارالسلام) دو یا تین راتوں کی گنجائش پیدا کرنے سے اصل مقصود یہ ہے کہ وصیت کی ضرورت ہو تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ موت کا تو کوئی پتہ نہیں ہے، اس لیے اس معاملہ میں سستی اور تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4207
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2738
2738. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں کہ وہ اپنی کسی چیز میں وصیت کرنا چاہتا ہومگر دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔“ محمد بن مسلم نے عمرو کے ذریعے سے ابن عمر ؓ کے نبی کریم ﷺ سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2738]
حدیث حاشیہ: (1) امام مسلم ؓ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد ابن عمر ؓ کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے: جب سے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میں نے ایک رات بھی ایسی نہیں گزاری کہ میری وصیت میرے پاس نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الوصیة، حدیث: 4207 (1627) اس حدیث میں تحریری وصیت کا ذکر مبالغے کے طور پر ہے کہ اس کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ کتابت کے بغیر بھی وصیت کو گواہی کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ (2) اس حدیث کے مطابق وصیت کا لکھا ہوا ہونا ہر وقت ضروری ہے کیونکہ موت کا علم نہیں کب اللہ کی طرف سے پیغام آ جائے اور انسان کا اخروی سفر شروع ہو جائے۔ اس بنا پر سفر کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور دنیوی طور پر جو لین دین ہے وہ لکھا ہوا اپنے پاس تیار رکھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے پتہ چلتا ہے۔ (3) حدیث کے آخر میں ذکر کردہ متابعت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ مذکورہ حدیث سے کچھ مختلف ہیں۔ (سنن الدارقطني: 90/4، وفتح الباري: 439/5) بہرحال انسان جن فرائض و واجبات میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے، ان کے لیے وصیت ضروری ہے اور جن میں کوتاہی نہیں کی ان کے لیے مستحب ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2738