كتاب الوصايا کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 3. بَابُ: الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ باب: تہائی مال کی وصیت کرنے کا بیان۔
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا ایسا بیمار کہ مرنے کے قریب آ لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے اور ایک بیٹی کے علاوہ میرا کوئی وارث نہیں، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے جواب دیا: ”نہیں“۔ میں نے کہا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“۔ میں نے کہا: تو ایک تہائی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں ایک تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے“ تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 36 (1295) مطولا، مناقب الأنصار 49 (3936)، المغازي 77 (4395)، النفقات 1 (5354)، المرضی13 (5659)، 16 (5668)، الدعوات 43 (6373)، الفرائض 6 (6733)، صحیح مسلم/ الوصایا 2 (2116)، سنن ابی داود/الوصایا 2 (2864)، سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، الوصایا 1 (2117)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 5 (2708)، (تحفة الأشراف: 3890)، موطا امام مالک/الوصایا3 (4)، مسند احمد (1/168، 172، 176، 179)، سنن الدارمی/الوصایا 7 (3239) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابی وقاس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے اور میں ان دنوں مکے میں تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک تہائی دے دو، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں تنگدست چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور لوگوں سے جو ان کے ہاتھ میں ہے مانگتے پھریں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 2 (2742) مطولا، النفقات 1 (5354) مطولا، صحیح مسلم/الوصایا 2 (1628م)، (تحفة الأشراف: 3880)، مسند احمد (1/172، 173) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (وہ مکہ میں بیمار پڑے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لاتے تھے، وہ اس سر زمین میں جہاں سے وہ ہجرت کر کے جا چکے تھے مرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی: ”سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمت نازل ہو“، (سعد کی صرف ایک بیٹی تھی)، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں دینے کی) وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھے مال کی، اللہ کی راہ میں وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: تو ایک تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”تہائی کی وصیت کر دو، ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج اور پریشان حال بنا کر اس دنیا سے جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ آل سعد میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ سعد بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس تشریف لائے، تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں دینے) وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، اور انہوں نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3950)، (حم 1/72) (صحیح)»
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ مکہ میں بیمار پڑے تو (ان کی بیمار پرسی کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، وہ آپ کو دیکھ کر رو پڑے، کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی سر زمین میں مر رہا ہوں جہاں سے ہجرت کر کے جا چکا ہوں، آپ نے فرمایا: ”نہیں، ان شاءاللہ (تم یہاں نہیں مرو گے)“۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: دو تہائی کی دے دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: آدھا دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ انہوں نے کہا: تو تہائی کی وصیت کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ایک تہائی کی وصیت کر دو، ایک تہائی بھی زیادہ ہے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3876)، مسند احمد (1/184) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیمار پرسی کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے وصیت کر دی؟“ میں نے کہا: جی ہاں کر دی، آپ نے فرمایا: ”کتنی؟“ میں نے کہا: اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”اپنی اولاد کیلئے کیا چھوڑا؟“ میں نے کہا: وہ سب مالدار و بے نیاز ہیں، آپ نے فرمایا: ”دسویں حصے کی وصیت کرو“، پھر برابر آپ یہی کہتے رہے اور میں بھی کہتا رہا ۱؎ آپ نے فرمایا: ”اچھا تہائی کی وصیت کر لو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، (تحفة الأشراف: 3898)، مسند احمد (1/174) (ضعیف) (مولف کی یہ سند عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر پچھلی سند صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی میں نے کل مال میں سے دو تہائی کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے آدھا کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تہائی؟ قال الشيخ الألباني: ضعيف
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیماری میں ان کی عیادت کی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، کہا: آدھے کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، کہا: تہائی کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی کی کر دو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3906)، مسند احمد (1/172) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے پاس آئے، سعد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصے اللہ کی راہ میں دے دینے کا حکم (یعنی اجازت) دے دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: تو پھر ایک تہائی کی وصیت کر دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک تہائی ہو سکتا ہے، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے، (آپ نے مزید فرمایا) اگر تم اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر (اس دنیا سے) جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں فقیر بنا کر جاؤ کہ وہ (دوسروں کے سامنے) ہاتھ پھیلاتے پھریں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17234) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ لوگ اگر وصیت کو ایک چوتھائی تک کم کریں (تو مناسب ہے) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 3 (2743)، صحیح مسلم/الوصایا 1 (1629)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 5 (2711)، (تحفة الأشراف: 5876)، مسند احمد (1/230، 233) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت وہ بیمار تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) میری کوئی اولاد (نرینہ) نہیں ہے، صرف ایک بچی ہے۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: آدھے کی وصیت کر دوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: تو میں ایک تہائی مال کی وصیت کرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3927)، مسند احمد (1/172، 173)، سنن الدارمی/الوصیة 7 (3238) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سعد بن مالک ہی سعد بن ابی وقاص ہیں، والد کا نام مالک اور کنیت ابوسعد ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ ان کے والد ۱؎ اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور قرض چھوڑ کر جنگ احد میں شہید ہو گئے، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو (وہاں موجود) دیکھیں (تاکہ مجھ سے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: ”جاؤ اور ہر ڈھیر الگ الگ کر دو“، تو میں نے (ایسا ہی) کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا، جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس گھڑی گویا وہ لوگ مجھ پر اور بھی زیادہ غصہ ہو گئے ۲؎ جب آپ نے ان لوگوں کی حرکتیں جو وہ کر رہے تھے دیکھیں تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے اردگرد تین چکر لگائے پھر اسی ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ“ جب وہ لوگ آ گئے تو آپ انہیں برابر (ان کے مطالبے کے بقدر) ناپ ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کرا دی اور میں اس پر راضی و خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کر دی اور ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 51 (2127)، الاستقراض 8 (2395)، 18 (2405)، الہبة 21 (2601)، الوصایا 36 (2781)، المناقب 25 (3580)، المغازي 18 (4053)، (تحفة الأشراف: 2344)، ویأتی فیما یلي: 3667، 3668 و3670 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی الله عنہ۔ ۲؎: یعنی اپنا اپنا مطالبہ لے کر شور برپا کرنے لگے کہ ہمیں دو، ہمارا حساب پہلے چکتا کرو وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|