كتاب الوصايا کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 7. بَابُ: إِذَا مَاتَ الْفَجْأَةَ هَلْ يُسْتَحَبُّ لأَهْلِهِ أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ باب: کیا اچانک مر جانے والے کی طرف سے اس کے گھر والوں کا صدقہ کرنا مستحب ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ: میری ماں اچانک مر گئی، وہ اگر بول سکتیں تو صدقہ کرتیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 19 (2760)، (تحفة الأشراف: 17161)، موطا امام مالک/الاقضیة 41 (53)، مسند احمد (6/51) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعا و استغفار اور مالی عبادات مثلاً صدقہ و خیرات، حج و عمرہ وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، اس سلسلہ میں کتاب و سنت میں دلائل موجود ہیں، امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ”کتاب الروح“ میں بہت تفصیلی بحث کی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ تمام ائمہ اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ میت کے حق میں جو بھی دعا کی جائے اور اس کی جانب سے جو بھی مالی عبادت کی جائے اس کا پورا پورا فائدہ اس کو پہنچتا ہے، کتاب وسنت میں اس کی دلیل موجود ہے اور اجماع سے بھی ثابت ہے، اس کی مخالفت کرنے والے کا شمار اہل بدعت میں سے ہو گا۔ البتہ بدنی عبادات کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ مدینہ میں ان کی ماں کے انتقال کا وقت آ پہنچا، ان سے کہا گیا کہ وصیت کر دیں، تو انہوں نے کہا: میں کس چیز میں وصیت کروں؟ جو کچھ مال ہے وہ سعد کا ہے، سعد کے ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، جب سعد رضی اللہ عنہ آ گئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں فائدہ پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: فلاں باغ ایسے اور ایسے ان کی طرف سے صدقہ ہے، اور باغ کا نام لیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3838، 4471)، موطا امام مالک/الأقضیة 41 (52)، مسند احمد (6/7) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|