(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، قال: سمعت ابا إسحاق , سمع ابا حبيبة الطائي، قال: اوصى رجل بدنانير في سبيل الله، فسئل ابو الدرداء فحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" مثل الذي يعتق، او يتصدق عند موته مثل الذي يهدي بعدما يشبع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق , سَمِعَ أَبَا حَبِيبَةَ الطَّائِيَّ، قَالَ: أَوْصَى رَجُلٌ بِدَنَانِيرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَسُئِلَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَحَدَّثَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يُعْتِقُ، أَوْ يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ مَثَلُ الَّذِي يُهْدِي بَعْدَمَا يَشْبَعُ".
ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کچھ دینار اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی۔ تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنی موت کے وقت غلام آزاد کرتا ہے یا صدقہ و خیرات دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص پیٹ بھر کھا لینے کے بعد (بچا ہوا) کسی کو ہدیہ دیدے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تو جیسے اس ہدیہ کا کوئی خاص ثواب اور اہمیت نہیں ہے ایسے ہی مرتے وقت غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، دے تو اس وقت دے جب خود کو بھی اس کی احتیاج اور ضرورت ہو۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3644
اردو حاشہ: (1) فاضل محقق کی تحقیق کے مطابق اس روایت کی سند حسن ہے‘ لیکن اس سند کو حسن کہنا محل نظر ہے کیونکہ اس کی سند میں ابوحبیبہ نامی راوی مجہول ہے‘ تاہم شواہد کی بنا پر بعض علماء نے اس روایت کو حسن قراردیا ہے۔ دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 30/86) (2) مقصد یہ ہے کہ موت کے وقت صدقہ ثواب کے لحاظ سے صحت کے وقت کے صدقے سے کمتر ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا کوئی ثواب یا فائدہ نہیں کیونکہ ہر نیکی تو ہر وقت ہی مفید ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3644
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3968
´صحت و تندرستی کی حالت میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت۔` ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مرتے وقت غلام آزاد کرے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی آسودہ ہو جانے کے بعد ہدیہ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3968]
فوائد ومسائل: اگرچہ موت کے قریب تہائی مال تک کا صدقہ یا وصیت کرنا جائز ہے، مگر افضل یہ ہے جیسے کہ صیح بخاری میں ہے: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺسے پوچھا: اے اللہ کےرسول صدقہ کونسا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: تواس حال میں صدقہ کرے کہ تو صحت مند ہو حریص ہو (یعنی زندگی اور مال کا) غنی رہنا چاہتا ہوں اور فقیر ہوجانے سے ڈرتا ہواور صدقہ کرنے میں سستی نہ کرے کہ جب جان حلق میں آن اٹکے تو کہنے لگے فلاں کے لئے اتنا ہے اور فلاں کےلئے اس قدر حالانکہ وہ تو(حق وارثت کی وجہ سے) فلاں کا ہوچکا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: (اہل ایمان دوسرے حاجت مندوں کو) اپنے سے ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خوداحتیاج ہوتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3968
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2123
´مرتے وقت صدقہ کرنے والے اور غلام آزاد کرنے والے کا بیان۔` ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی، میں نے ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ملاقات کی اور کہا: میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟ میں اسے کہاں خرچ کروں، فقراء میں، مسکینوں میں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں؟ انہوں نے کہا: میری بات یہ ہے کہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو مجاہدین کے برابر کسی کو نہ سمجھتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو شخص مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو آسودہ ہونے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2123]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں ابوحبیبہ لین الحدیث ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2123