صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ بِاللَّيْلِ
رات کی نفلی نماز (تہجّد) کے ابواب کا مجموعہ
736. (503) بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ
نماز تہجّد میں بلند آواز سے قراءت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1156
Save to word اعراب
حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، وحدثنا سلم بن جنادة ، نا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: جاء رجل إلى عمر ، وهو بعرفة، فقال: يا امير المؤمنين! جئت من الكوفة، وتركت بها رجلا يملي المصاحف عن ظهر قلبه، قال: فغضب عمر، وانتفخ حتى كاد يملا ما بين شعبتي الرحل، فقال: من هو ويحك؟ قال: عبد الله بن مسعود، قال: فما زال يسرى عنه الغضب ويطفا حتى عاد إلى حاله التي كان عليها، ثم قال: ويحك، ما اعلم بقي احد احق بذلك منه، وساحدثك عن ذلك، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزال يسمر عند ابي بكر الليلة كذلك في الامر من امر المسلمين، وإنه سمر عنده ذات ليلة، وانا معه، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي، وخرجنا معه فإذا رجل قائم يصلي في المسجد، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع قراءته، فلما كدنا ان نعرف الرجل، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سره ان يقرا القرآن رطبا كما انزل فليقراه على قراءة ابن ام عبد" قال: ثم جلس الرجل يدعو فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" سل تعطه" مرتين، قال: فقال عمر: فقلت: والله لاغدون إليه فلابشرنه، قال: فغدوت إليه لابشره، فوجدت ابا بكر قد سبقني إليه، فبشره، ولا والله ما سابقته إلى خير قط إلا سبقني . هذا حديث ابي موسى، غير انه لم يقل وانتفخ، وقال سلم بن جنادة: فما زال يسري عنه، وقال: واقف بعرفة، ولم يقل: لا يزال، وقال: يستمع قراءته، وقال: فقال عمر: والله لاغدون إليهحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، وَحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، نَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ ، وَهُوَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! جِئْتُ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهَرِ قَلْبِهِ، قَالَ: فَغَضِبَ عُمَرُ، وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيِ الرَّحْلِ، فَقَالَ: مَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: فَمَا زَالَ يُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ وَيُطْفَأُ حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، مَا أَعْلَمُ بَقِيَ أَحَدٌ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَلِكَ فِي الأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، وَخَرَجْنَا مَعَهُ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَ الرَّجُلَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ" قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" سَلْ تُعْطَهْ" مَرَّتَيْنِ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لأُبَشِّرَهُ، فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ، فَبَشَّرَهُ، وَلا وَاللَّهِ مَا سَابَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلا سَبَقَنِي . هَذَا حَدِيثُ أَبِي مُوسَى، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَقُلْ وَانْتَفَخَ، وَقَالَ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ: فَمَا زَالَ يَسْرِي عَنْهُ، وَقَالَ: وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، وَلَمْ يَقُلْ: لا يَزَالُ، وَقَالَ: يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، وَقَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ
حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جبکہ آپ اُسے جانتے تھے تو اُس نے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین، میں کوفہ سے آیا ہوں اور کوفہ میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آیا ہوں جو قرآن مجید زبانی لکھواتا ہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سخت غصّے میں آ گئے اور شدید غضبناک ہوئے حتیٰ کہ قریب تھا کہ کجاوے کے دونوں پہلو غصّے سے لبریز ہو جاتے (سخت غضبناک ہوئے) آپ نے فرمایا کہ تیری بربادی ہو، وہ کون ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو آپ کا غصّہ آہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہو گیا اور آپ کا غضب ٹھنڈا ہوگیا حتیٰ کہ آپ پہلے کی طرح پر سکون ہو گئے پھر فرمایا کہ تیرا بھلا ہو، مجھے نہیں معلوم کہ ان کے علاوہ کوئی شخص موجود ہو جو اس کام کا ان سے زیادہ حق رکھتا ہو - اور میں تمہیں اس بارے میں بتاتا ہوں ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر مسلمانوں کے معاملات میں ہر رات مشورہ کیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر بات چیت کے لئے مو جود تھے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، (پھر جب) واپس جانے کے لئے چلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر آگئے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر اس کی قراءت سننے لگے، ہم اس شخص کو پہچاننے ہی والے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ خوشی ہو کہ وہ قرآن مجید کو اسی طرح تازہ پڑھے جیسے وہ نازل ہوا تھا تو اسے ابن ام عبد کی قراءت کے مطابق پڑھنا چاہئے۔ پھر اُس شخص نے بیٹھ کر دعا مانگنی شروع کر دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے: مانگو، تمہیں وہ عطا کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ بات فرمائی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم، میں صبح ضرور ان کے پاس جاکر انہیں خوش خبری دوں گا۔ چنانچہ میں صبح کے وقت اُن کی طرف گیا تا کہ اُنہیں خوشخبری دوں تو میں نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے ہی ان کے پاس پہنچ کر انہیں خوشخبری دے چکے تھے۔ اللہ کی قسم، میں نے جس نیک کام میں بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کیا تو وہ مجھ سے سبقت لے گئے۔ یہ جناب ابوموسیٰ کی حدیث ہے مگر اُنہوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اور آپ کی رگیں پھول گئیں۔ جناب سلم بن جنادہ کے الفاظ یہ ہیں کہ تو آہستہ آہستہ ان کا غصّہ اُترنا شروع ہو گیا۔ اور کہا کہ آپ عرفات کے میدان میں کھڑے تھے۔ اور یہ لفظ بیان نہیں کیے۔ مسلسل (نبی علیہ السلام رات کے وقت مشورہ کرتے تھے) اور يَسْمَعُ قِرَاءَتَهُ کی بجائے يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ آپ غور سے اُن کی قرأت سننے لگے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وَاللهِ لَأَغْدُوْنَّ إِلَيْهِ اللہ کی قسم، میں ضرور ان کے پاس جاؤں گا۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1157
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى ، نا يحيى بن عبد الله بن بكير ، حدثني الليث ، ح وحدثنا سعيد بن عبد الله بن عبد الحكم ، حدثنا ابي ، اخبرنا الليث ، عن خالد بن يزيد ، عن سعيد بن ابي هلال ، عن مخرمة بن سليمان ، ان كريبا مولى ابن عباس اخبره، قال: سالت ابن عباس ، فقلت: ما صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل؟ قال:" كان يقرا في بعض حجره فيسمع من كان خارجا" نَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، نَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، ح وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلالٍ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ: مَا صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ قَالَ:" كَانَ يُقْرَأُ فِي بَعْضِ حُجَرِهِ فَيَسْمَعُ مَنْ كَانَ خَارِجًا"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی حجرہ مبارک میں (نماز میں) قراءت کرتے تو حجرے کے باہر لوگ سن لیتے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.