حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جبکہ آپ اُسے جانتے تھے تو اُس نے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین، میں کوفہ سے آیا ہوں اور کوفہ میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آیا ہوں جو قرآن مجید زبانی لکھواتا ہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سخت غصّے میں آ گئے اور شدید غضبناک ہوئے حتیٰ کہ قریب تھا کہ کجاوے کے دونوں پہلو غصّے سے لبریز ہو جاتے (سخت غضبناک ہوئے) آپ نے فرمایا کہ تیری بربادی ہو، وہ کون ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو آپ کا غصّہ آہستہ آہستہ دور ہونا شروع ہو گیا اور آپ کا غضب ٹھنڈا ہوگیا حتیٰ کہ آپ پہلے کی طرح پر سکون ہو گئے پھر فرمایا کہ تیرا بھلا ہو، مجھے نہیں معلوم کہ ان کے علاوہ کوئی شخص موجود ہو جو اس کام کا ان سے زیادہ حق رکھتا ہو - اور میں تمہیں اس بارے میں بتاتا ہوں ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر مسلمانوں کے معاملات میں ہر رات مشورہ کیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر بات چیت کے لئے مو جود تھے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، (پھر جب) واپس جانے کے لئے چلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر آگئے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر اس کی قراءت سننے لگے، ہم اس شخص کو پہچاننے ہی والے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو یہ خوشی ہو کہ وہ قرآن مجید کو اسی طرح تازہ پڑھے جیسے وہ نازل ہوا تھا تو اسے ابن ام عبد کی قراءت کے مطابق پڑھنا چاہئے۔“ پھر اُس شخص نے بیٹھ کر دعا مانگنی شروع کر دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے: ”مانگو، تمہیں وہ عطا کیا جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ بات فرمائی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم، میں صبح ضرور ان کے پاس جاکر انہیں خوش خبری دوں گا۔ چنانچہ میں صبح کے وقت اُن کی طرف گیا تا کہ اُنہیں خوشخبری دوں تو میں نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے ہی ان کے پاس پہنچ کر انہیں خوشخبری دے چکے تھے۔ اللہ کی قسم، میں نے جس نیک کام میں بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کیا تو وہ مجھ سے سبقت لے گئے۔ یہ جناب ابوموسیٰ کی حدیث ہے مگر اُنہوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اور آپ کی رگیں پھول گئیں۔ جناب سلم بن جنادہ کے الفاظ یہ ہیں کہ تو آہستہ آہستہ ان کا غصّہ اُترنا شروع ہو گیا۔ اور کہا کہ آپ عرفات کے میدان میں کھڑے تھے۔ اور یہ لفظ بیان نہیں کیے۔ مسلسل (نبی علیہ السلام رات کے وقت مشورہ کرتے تھے) اور ”يَسْمَعُ قِرَاءَتَهُ“ کی بجائے ”يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ“ آپ غور سے اُن کی قرأت سننے لگے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”وَاللهِ لَأَغْدُوْنَّ إِلَيْهِ“ اللہ کی قسم، میں ضرور ان کے پاس جاؤں گا۔