كِتَاب النِّكَاحِ نکاح کے احکام و مسائل The Book of Marriage 15. باب زَوَاجِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَنُزُولِ الْحِجَابِ وَإِثْبَاتِ وَلِيمَةِ الْعُرْسِ: باب: نکاح زینب رضی اللہ عنہا اور نزول حجاب اور ولیمہ کا بیان۔ Chapter: The Marriage of Zainab Bint Jahsh, The Revelation of (the verse of) Hijab, and confirmation of the importance of the wedding feast. حدثنا محمد بن حاتم بن ميمون ، حدثنا بهز . ح وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا ابو النضر هاشم بن القاسم ، قالا جميعا: حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس ، وهذا حديث بهز، قال: لما انقضت عدة زينب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزيد: " فاذكرها علي "، قال: فانطلق زيد حتى اتاها، وهي تخمر عجينها، قال: فلما رايتها عظمت في صدري، حتى ما استطيع ان انظر إليها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذكرها فوليتها ظهري ونكصت على عقبي، فقلت: يا زينب، ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرك، قالت: ما انا بصانعة شيئا حتى اوامر ربي، فقامت إلى مسجدها، ونزل القرآن وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بغير إذن، قال: فقال: ولقد رايتنا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اطعمنا الخبز، واللحم حين امتد النهار، فخرج الناس، وبقي رجال يتحدثون في البيت بعد الطعام، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم واتبعته، فجعل يتتبع حجر نسائه يسلم عليهن، ويقلن: يا رسول الله، كيف وجدت اهلك؟، قال: فما ادري انا اخبرته ان القوم قد خرجوا، او اخبرني، قال: فانطلق حتى دخل البيت، فذهبت ادخل معه فالقى الستر بيني وبينه، ونزل الحجاب، قال: ووعظ القوم بما وعظوا به "، زاد ابن رافع في حديثه: لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه، إلى قوله: والله لا يستحيي من الحق سورة الاحزاب آية 53.حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حدثنا بَهْزٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَا جَمِيعًا: حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ بَهْزٍ، قَالَ: لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ: " فَاذْكُرْهَا عَلَيَّ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ زَيْدٌ حَتَّى أَتَاهَا، وَهِيَ تُخَمِّرُ عَجِينَهَا، قَالَ: فَلَمَّا رَأَيْتُهَا عَظُمَتْ فِي صَدْرِي، حَتَّى مَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَنْظُرَ إِلَيْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَكَرَهَا فَوَلَّيْتُهَا ظَهْرِي وَنَكَصْتُ عَلَى عَقِبِي، فَقُلْتُ: يَا زَيْنَبُ، أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُكِ، قَالَت: مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أُوَامِرَ رَبِّي، فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغَيْرِ إِذْنٍ، قَالَ: فقَالَ: وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَنَا الْخُبْزَ، وَاللَّحْمَ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ، فَخَرَجَ النَّاسُ، وَبَقِيَ رِجَالٌ يَتَحَدَّثُونَ فِي الْبَيْتِ بَعْدَ الطَّعَامِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتَّبَعْتُهُ، فَجَعَلَ يَتَتَبَّعُ حُجَرَ نِسَائِهِ يُسَلِّمُ عَلَيْهِنَّ، وَيَقُلْنَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ؟، قَالَ: فَمَا أَدْرِي أَنَا أَخْبَرْتُهُ أَنَّ الْقَوْمَ قَدْ خَرَجُوا، أَوْ أَخْبَرَنِي، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ مَعَهُ فَأَلْقَى السِّتْرَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَنَزَلَ الْحِجَابُ، قَالَ: وَوُعِظَ الْقَوْمُ بِمَا وُعِظُوا بِهِ "، زَادَ ابْنُ رَافِعٍ فِي حَدِيثِهِ: لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ، إِلَى قَوْلِهِ: وَاللَّهُ لا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ سورة الأحزاب آية 53. محمد بن حاتم بن میمون نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں بہز نے حدیث سنائی، نیز محمد بن رافع نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابونضر ہاشم بن قاسم نے حدیث سنائی، ان دونوں (بہز اور ابونضر) نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ یہ بہز کی حدیث ہے۔ کہا: جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی عدت گزری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "اِن (زینب رضی اللہ عنہا) کے سامنے ان کی میرے ساتھ شادی کا ذکر کرو۔"کہا: تو حضرت زید رضی اللہ عنہ چلے حتیٰ کہ ان کے پاس پہنچے تو وہ اپنے آٹے میں خمیر ملا رہی تھیں، کہا: جب میں نے ان کو دیکھا تو میرے دل میں ان کی عظمت بیٹھ گئی حتیٰ کہ میں ان کی طرف نظر بھی نہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (کے ساتھ شادی) کا ذکر کیا تھا، میں نے ان کی طرف اپنی پیٹھ کی اور ایڑیوں کے بل مڑا اور کہا: زینب! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا ذکر کرتے ہوئے پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: میں کچھ کرنے والی نہیں یہاں تک کہ اپنے رب سے مشورہ (استخارہ) کر لوں، اور وہ اٹھ کر اپنی نماز کی جگہ کی طرف چلی گئیں اور (ادھر) قرآن نازل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اجازت لیے ان کے پاس تشریف لے آئے۔ (سلیمان بن مغیرہ نے) کہا: (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے اپنے آپ سمیت سب لوگوں کو دیکھا کہ جب دن کا اجالا پھیل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روٹی اور گوشت کھلایا۔ اس کے بعد (اکثر) لوگ نکل گئے، چند باقی رہ گئے وہ کھانے کے بعد (آپ کے) گھر میں ہی باتیں کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے) نکلے، میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا، آپ یکے بعد دیگرے اپنی ازواج کے حجروں کی طرف جا کر انہیں سلام کہنے لگے۔ وہ (جواب دے کر) کہتیں: اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (نئی) اہلیہ کو کیسا پایا؟ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نہیں جانتا میں نے آپ کو بتایا کہ لوگ جا چکے ہیں یا آپ نے مجھے بتایا۔ پھر آپ چل پڑے حتیٰ کہ گھر میں داخل ہو گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ داخل ہونے لگا تو آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا دیا اور (اس وقت) حجاب (کا حکم) نازل ہوا، کہا: اور لوگوں کو (اس مناسبت سے) جو نصیحت کی جانی تھی کر دی گئی۔ ابن رافع نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: "اے ایمان والو! تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو مگر یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، اس حال میں (آؤ) کہ اس کے پکنے کا انتظار نہ کر رہے ہو (کھانے کے وقت آؤ پہلے نہ آؤ) " سے لے کر اس فرمان تک: "اور اللہ کا حق سے شرم نہیں کرتا بہز رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہو گئی تو آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے (اس کے سابقہ خاوند) حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”میری طرف سے اسے پیغام دو۔“ تو حضرت زید گئے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو وہ اپنے آٹے کا خمیر اٹھا رہی تھیں (گوندھنے کے بعد بہتر ہونے کے لیے رکھ چھوڑا تھا) حضرت زید بیان کرتے ہیں تو جب میں نے اسے دیکھا تو میرے دل میں ان کی قدر و منزلت کی بڑائی بیٹھ گئی (کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بننے والی تھیں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے منگنی کا پیغام دینے کی بنا پر میں اسے دیکھ نہیں سکتا تھا (ہیبت و جلال کی بنا پر) میں نے اس کی طرف اپنی پشت کر دی اور اپنی ایڑیوں پر لوٹ کر عرض کیا۔ اے زینب! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے پیغام بھیجا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ جب تک میں اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں (استخارہ نہ کر لوں) میں کوئی جواب نہیں دوں گی۔ وہ اپنی سجدہ گاہ میں (استخارہ کے لیے) کھڑی ہوئیں اور قرآنِ مجید کا نزول ہوا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا اجازت اس کے پاس چلے گئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے ساتھیوں کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن چڑھے ہمیں روٹیاں اور گوشت کھلایا، لوگ (فارغ ہو کر) گھر سے نکل گئے اور کچھ آدمی کھانے کے بعد گھر میں باتوں میں لگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑا، آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم یکے بعد دیگرے اپنی بیویوں کے کمروں میں جانے لگے۔ انہیں سلام کہتے اور وہ پوچھتیں، اے اللہ کے رسول صلی ٰاللہ علیہ وسلم! آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو کیسا پایا؟ حضرت انس رضی تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے معلوم نہیں میں نے آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ لوگ چلے گئے ہیں یا آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی، پھر آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم چلے حتی کہ گھر میں داخل ہو گئے اور میں بھی آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کے ساتھ داخل ہونے لگا تو آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور پردہ کا حکم نازل ہو گیا۔ اور لوگوں کو اس کے مناسب نصیحت کی گئی۔ ابن رافع کی حدیث میں آیت کا تذکرہ ہے کہ (نبی صلی ٰاللہ علیہ وسلم کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہو، الا یہ کہ کھانے کے لیے بلایا جائے۔ لیکن اس کے پکنے کے انتظار میں نہ بیٹھ رہو۔۔۔ اور اللہ حق کے بیان میں نہیں شرماتا۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابوربیع زہرانی، ابو کامل فُضَیل بن حسین اور قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حماد نے، وہ (جو) زید کے بیٹے ہیں، ثابت نے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ ابو کامل کی روایت میں ہے: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی بیوی کا۔۔ ابوکامل نے کہا: اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کی کسی چیز (خوشی) پر۔ اس جیسا ولیمہ کیا ہو جیسا حضرت زینب رضی اللہ عنہا (کے ساتھ نکاح) پر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بکری ذبح کی امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کس بیوی کے نکاح پر اس قدر ولیمہ کیا ہو۔ جس قدر زینب کے نکاح پر ولیمہ کیا۔ کیونکہ آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالعزیز بن صہیب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کا اس سے بڑھ کر یااس سے بہتر ولیمہ نہیں کیا جیسا ولیمہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا کیا۔ ثابت بنانی نے پوچھا: آپ نے کس چیز سے ولیمہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: آپ نے انہیں روٹی اور گوشت کھلایا حتیٰ کہ انہوں نے (سیر ہو کر کھانا) چھوڑ دیا امام صاحب دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں کسی بیوی سے نکاح پر اس سے زیادہ یا بہتر و عمدہ ولیمہ نہیں کیا جیسا ولیمہ حضرت زینب سے نکاح پر کیا۔ حضرت ثابت بنانی نے پوچھا وہ ولیمہ کیا تھا؟ تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، انہیں اس قدر روٹیاں اور گوشت کھلایا حتی کہ لوگوں نے (سیر ہو کر) باقی کھانا چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي ، وعاصم بن النضر التيمي ، ومحمد بن عبد الاعلى ، كلهم عن معتمر ، واللفظ لابن حبيب: حدثنا معتمر بن سليمان، قال: سمعت ابي ، حدثنا ابو مجلز ، عن انس بن مالك ، قال: " لما تزوج النبي صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش دعا القوم فطعموا، ثم جلسوا يتحدثون، قال: فاخذ كانه يتهيا للقيام فلم يقوموا، فلما راى ذلك قام، فلما قام، قام من قام من القوم "، زاد عاصم، وابن عبد الاعلى في حديثهما، قال: فقعد ثلاثة، وإن النبي صلى الله عليه وسلم جاء ليدخل، فإذا القوم جلوس، ثم إنهم قاموا فانطلقوا، قال: فجئت فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم انهم قد انطلقوا، قال: فجاء حتى دخل، فذهبت ادخل فالقى الحجاب بيني وبينه، قال: وانزل الله عز وجل يايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه، إلى قوله: إن ذلكم كان عند الله عظيما سورة الاحزاب آية 53.حدثنا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، وَعَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، كُلُّهُمْ عَنْ مُعْتَمِرٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَبِيبٍ: حدثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حدثنا أَبُو مِجْلَزٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ دَعَا الْقَوْمَ فَطَعِمُوا، ثُمَّ جَلَسُوا يَتَحَدَّثُونَ، قَالَ: فَأَخَذَ كَأَنَّهُ يَتَهَيَّأُ لِلْقِيَامِ فَلَمْ يَقُومُوا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ، فَلَمَّا قَامَ، قَامَ مَنْ قَامَ مِنَ الْقَوْمِ "، زَادَ عَاصِمٌ، وَابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى فِي حَدِيثِهِمَا، قَالَ: فَقَعَدَ ثَلَاثَةٌ، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ لِيَدْخُلَ، فَإِذَا الْقَوْمُ جُلُوسٌ، ثُمَّ إِنَّهُمْ قَامُوا فَانْطَلَقُوا، قَالَ: فَجِئْتُ فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدِ انْطَلَقُوا، قَالَ: فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ، فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ فَأَلْقَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ، إِلَى قَوْلِهِ: إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 53. یحییٰ بن حبیب حارثی، عاصم بن نضر تیمی اور محمد بن عبدالاعلیٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، سب نے معتمر سے روایت کی۔ لفظ (یحییٰ) بن حبیب کے ہیں۔ کہا: ہم سے معتمر بن سلیمان نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے کہا: ہمیں ابومجلز نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو آپ نے لوگوں کو (کھانے کی) دعوت دی، انہوں نے کھانا کھایا، پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ کہا: آپ نے ایسا انداز اختیار فرمایا گویا کہ کھڑے ہونے لگے ہوں اس پر بھی وہ نہ اٹھے، جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کھڑے ہو گئے، جب آپ کھڑے ہوئے تو لوگوں میں سے بھی جو کھڑے ہوئے، وہ ہو گئے۔ عاصم اور ابن عبدالاعلیٰ نے اپنی حدیث میں اضافہ کیا: کہا" تین آدمی بیٹھے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے میں) داخل ہونے کے لیے تشریف لے آئے، تو (اس وقت بھی) وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، پھر (کچھ دیر بعد) وہ اٹھے اور چلے گئے۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ جا چکے ہیں۔ آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوئے، میں بھی داخل ہونے لگا تو آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا دیا۔ کہا: اور (اس موقع پر) اللہ عزوجل نے (یہ آیت) نازل فرمائی: "اے ایمان والو! تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے، ایسے (وقت میں) آؤ کہ (آ کر) اس کے پکنے کا انتظار کرنے والے نہ ہو (کھانا رکھ دیا جائے تو آؤ) " اس فرمان تک: "بلاشبہ یہ بات اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی۔ لوگوں کو کھانے کی دعوت دی، وہ کھا کر باتوں میں مشغول ہو کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے اٹھنے کا انداز اختیار کیا (تاکہ سب اٹھ جائیں، لیکن پھر بھی) کچھ لوگ نہ اٹھے، تو جب آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی اٹھ کھڑے ہوئے، تو جب آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، اکثر لوگ چل پڑے۔ عاصم اور ابن عبدالاعلیٰ کی روایت میں ہے تین آدمی بیٹھے رہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ازواج مطہرات کے پاس گھوم پھر کر) واپس آئے تاکہ گھر میں داخل ہوں، تو وہ (تینوں) بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر وہ بھی اٹھ کر روانہ ہو گئے۔ میں نے آ کر آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ وہ چلے گئے ہیں، تو آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم آ کر گھر میں داخل ہونے لگے، اور میں بھی داخل ہونے لگا تو آپ صلی ٰاللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا، اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ}
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني عمرو الناقد ، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : إن انس بن مالك ، قال: " انا اعلم الناس بالحجاب، لقد كان ابي بن كعب يسالني عنه، قال انس: اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب بنت جحش، قال: وكان تزوجها بالمدينة، فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار، فجلس رسول الله وجلس معه رجال بعد ما قام القوم، حتى قام رسول الله فمشى فمشيت معه حتى بلغ باب حجرة عائشة، ثم ظن انهم قد خرجوا فرجع ورجعت، معه فإذا هم جلوس مكانهم، فرجع فرجعت الثانية حتى بلغ حجرة عائشة، فرجع فرجعت، فإذا هم قد قاموا، فضرب بيني وبينه بالستر، وانزل الله آية الحجاب ".وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حدثنا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حدثنا أَبِي ، عَنْ صَالِح ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : إِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: " أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِالْحِجَابِ، لَقَدْ كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَسْأَلُنِي عَنْهُ، قَالَ أَنَسٌ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِينَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ وَجَلَسَ مَعَهُ رِجَالٌ بَعْدَ مَا قَامَ الْقَوْمُ، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ فَمَشَى فَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ثُمَّ ظَنَّ أَنَّهُمْ قَدْ خَرَجُوا فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ، مَعَهُ فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ مَكَانَهُمْ، فَرَجَعَ فَرَجَعْتُ الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ حُجْرَةَ عَائِشَةَ، فَرَجَعَ فَرَجَعَتْ، فَإِذَا هُمْ قَدْ قَامُوا، فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ بِالسِّتْرِ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ ". ابن شہاب نے کہا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پردے (کے احکام) کو سب لوگوں سے زیادہ جاننے والا میں ہوں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے دلہا کی حیثیت سے صبح کی، آپ نے (اسی رات) مدینہ میں ان سے شادی کی تھی، دن چڑھنے کے بعد آپ نے لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو کچھ افراد لوگوں کے چلے جانے کے بعد بھی آپ کے ساتھ بیٹھے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ آپ چلے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑا حتیٰ کہ آپ (سب حجروں سے ہوتے ہوئے) حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر پہنچے۔ پھر آپ نے سوچا کہ وہ لوگ جا چکے ہوں گے، آپ واپس ہوئے، میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا، تو تب بھی وہ اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ لوٹ گئے اور میں بھی دوبارہ لوٹ گیا، حتیٰ کہ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے تک پہنچے تو پھر سے واپس آئے، میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا، تو دیکھا کہ وہ لوگ اٹھ (کر جا) چکے تھے، اس کے بعد آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا دیا، اور (اس وقت) پردے کی آیت نازل کی گئی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں پردے کے احکام کو سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح اس حال میں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش کے دولہا بنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مدینہ میں شادی کی تھی، اور لوگوں کو دن چڑھے کھانے کے لیے بلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور عام لوگوں کے اٹھ جانے کے بعد کچھ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور چل پڑے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ کے دروازہ تک پہنچ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹ آیا لیکن وہ تو ابھی تک اپنی جگہ بیٹھے ہوئے تھے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ واپس چلے گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ تک پہنچ گئے اور وہاں سے لوٹ آئے، میں بھی لوٹ آیا۔ تو وہ جا چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پردہ کی آیت نازل فرما دی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جعفر يعني ابن سليمان ، عن الجعد ابي عثمان ، عن انس بن مالك ، قال: تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل باهله، قال: فصنعت امي ام سليم حيسا فجعلته في تور، فقالت: يا انس، اذهب بهذا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقل: بعثت بهذا إليك امي وهي تقرئك السلام، وتقول: إن هذا لك منا قليل يا رسول الله، قال: فذهبت بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن امي تقرئك السلام، وتقول: إن هذا لك منا قليل يا رسول الله، فقال: " ضعه "، ثم قال: " اذهب، فادع لي فلانا وفلانا وفلانا ومن لقيت وسمى رجالا "، قال: فدعوت من سمى ومن لقيت، قال: قلت لانس: عدد كم كانوا؟ قال: زهاء ثلاث مائة، وقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا انس، هات التور "، قال: فدخلوا حتى امتلات الصفة والحجرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليتحلق عشرة عشرة، ولياكل كل إنسان مما يليه "، قال: فاكلوا حتى شبعوا، قال: فخرجت طائفة ودخلت طائفة حتى اكلوا كلهم، فقال لي: " يا انس، ارفع "، قال: فرفعت فما ادري حين وضعت كان اكثر ام حين رفعت؟، قال: وجلس طوائف منهم يتحدثون في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس وزوجته مولية وجهها إلى الحائط، فثقلوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم على نسائه، ثم رجع، فلما راوا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجع، ظنوا انهم قد ثقلوا عليه، قال: فابتدروا الباب فخرجوا كلهم وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ارخى الستر، ودخل وانا جالس في الحجرة، فلم يلبث إلا يسيرا حتى خرج علي، وانزلت هذه الآية، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وقراهن على الناس: يايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي سورة الاحزاب آية 53، إلى آخر الآية، قال الجعد: قال: انس بن مالك: انا احدث الناس عهدا بهذه الآيات، وحجبن نساء النبي صلى الله عليه وسلم.حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ، قَالَ: فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ، فقَالَت: يَا أَنَسُ، اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْ: بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ: " ضَعْهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ، فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ وَسَمَّى رِجَالًا "، قَالَ: فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: عَدَدَ كَمْ كَانُوا؟ قَالَ: زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ، وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَنَسُ، هَاتِ التَّوْرَ "، قَالَ: فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلَأَتِ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ "، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ، فقَالَ لِي: " يَا أَنَسُ، ارْفَعْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ؟، قَالَ: وَجَلَسَ طَوَائِفُ مِنْهُمْ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ، فَثَقُلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ رَجَعَ، فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ، ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا كُلُّهُمْ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَرْخَى السِّتْرَ، وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَيَّ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ سورة الأحزاب آية 53، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ الْجَعْدُ: قَالَ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ، وَحُجِبْنَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. جعفر بن سلیمان نے ہمیں ابوعثمان جعد سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور اپنی اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے۔ میری والدہ ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے حَیس تیار کیا، اسے ایک پیالہ نما بڑے برتن میں ڈالا، اور کہا: انس! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ اور عرض کرو: یہ میری والدہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، اور وہ آپ کو سلام عرض کرتی ہیں اور کہتی ہیں: اللہ کے رسول! یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے تھوڑی سی چیز ہے۔ کہا: میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری والدہ آپ کو سلام پیش کرتی ہیں اور کہتی ہیں: اللہ کے رسول! یہ آپ کے لیے ہماری طرف سے تھوڑی سی چیز ہے۔ آپ نے فرمایا: "اسے رکھ دو" (آپ نے اسے بھی ولیمے کے کھانے کے ساتھ شامل کر لیا) پھر فرمایا: "جاؤ، فلاں، فلاں اور فلاں اور جو لوگ تمہیں ملیں انہیں بلا لاؤ۔" آپ نے چند آدمیوں کے نام لیے۔ کہا: میں ان لوگوں کو جن کے آپ نے نام لیے اور وہ جو مجھے ملے، ان کو لے آیا۔ کہا: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: وہ (سب) تعداد میں کتنے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو کے لگ بھگ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "انس! برتن لے اؤ" کہا: لوگ اندر داخل ہوئے حتیٰ کہ صفہ (چبوترہ) اور حجرہ بھر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس دس افراد حلقہ بنا لیں، اور ہر انسان اپنے سامنے سے کھائے۔" ان سب نے کھایا حتیٰ کہ سیر ہو گئے، ایک گروہ نکلا تو دوسرا داخل ہوا (اس طرح ہوتا رہا) حتیٰ کہ ان سب نے کھانا کھا لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا: "انس! اٹھا لو" تو میں نے (برتن) اٹھا لیے، مجھے معلوم نہیں کہ جب میں نے (کھانا) رکھا تھا اس وقت زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا اُس وقت۔ کہا: ان میں سے کچھ ٹولیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ کی اہلیہ دیوار کی طرف رخ کیے بیٹھی تھیں، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکلے، (یکے بعد دیگرے) اپنی ازواج کو سلام کیا، پھر واپس ہوئے۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ واپس ہو گئے ہیں، تو انہوں نے محسوس کیا کہ وہ آپ پر گراں گزر رہے ہیں۔ کہا: تو وہ جلدی سے دروازے کی طرف لپکے اور سب کے سب نکل گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (آگے) تشریف لائے، حتیٰ کہ آپ نے پردہ لٹکایا اور اندر داخل ہو گئے اور میں حجرہ (نما صفے) میں بیٹھا ہوا تھا، آپ تھوڑی ہی دیر ٹھہرے حتی کہ (دوبارہ) باہر میرے پاس آئے، اور (آپ پر) یہ آیت نازل کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور لوگوں کے سامنے انہیں (آیتِ کریمہ کے جملہ کلمات کو) تلاوت فرمایا: "اے ایمان والو! تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے، کھانا پکنے کا انتظار کرتے ہوئے نہیں، بلکہ جب تمہیں دعوت دی جائے تب تم اندر جاؤ، پھر جب کھانا کھا چلو تو منشتر ہو جاؤ، اور (وہیں) باتوں میں دل لگاتے ہوئے نہیں (بیٹھے رہو۔) بلاشبہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتی ہے" آیت کے آخر تک۔ جعد نے کہا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ان آیات کے ساتھ (جو ایک ہی طویل آیت میں سمو دی گئیں) میرا تعلق سب سے زیادہ قریب کا ہے، اور (ان کے نزول ہوتے ہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رضی اللہ عنھن کو پردہ کرا دیا گیا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور اپنی اہلیہ کے پاس گئے، میری والدہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (کھجور، ستو اور گھی کا) مالیدہ (حَیس) تیار کر کے ایک تھال میں رکھا اور کہا، اے انس! اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرو، اور عرض کرو، یہ میری والدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا ہے۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کرتی ہیں اور کہتی ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ہماری طرف سے تھوڑا سا ہدیہ ہے، میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میری ماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتی ہیں اور عرض کرتی ہیں، یہ ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معمولی سا تحفہ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ پھر فرمایا: ”جاؤ میری طرف سے فلاں، فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ، اور (ان کے علاوہ) جو بھی تمہیں ملے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کے نام لیے، تو میں بلا لایا، جن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے اور جو اور مجھے ملے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں، میں نے پوچھا، ان کی تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے کہا، تقریبا تین سو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے انس! تھال لے آؤ۔“ لوگ اندر آ گئے، حتی کہ چبوترہ اور حجرہ بھر گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس دس آدمی حلقہ بنا لیں اور ہر آدمی اپنے آ گے سے کھائے۔“ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک گروہ نکلتا تو دوسرا گروہ داخل ہو جاتا، حتی کہ تمام لوگوں نے کھانا کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے انس! اٹھا لو۔“ میں نے اٹھایا تو میں جان نہیں سکا جب میں نے رکھا تھا اس وقت کھانا زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا اس وقت زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں لوگوں میں سے کچھ حضرات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں باتوں میں مشغول ہو کر بیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ دیوار کی طرف منہ پھیر کر بیٹھی ہوئی تھیں، ان کا بیٹھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کو سلام کرنے نکل گئے۔ پھر واپس آئے، جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لوٹے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گرانی کا سبب بنے ہیں تو وہ جلدی جلدی دروازے کی طرف لپکے، اور سب نکل گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پردہ لٹکا کر اندر داخل ہو گئے، اور میں (پردہ سے باہر) حجرہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر بعد نکل کر میرے پاس آ گئے اور یہ آیت اتری، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر لوگوں کو سنائی: (اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو مگر یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے، نہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کا لیکن جب تم کو بلایا جائے تو داخل ہو، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو، یہ باتیں نبی کے لیے باعث اذیت تھیں، لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے (شرم و حیا کی بنا پر) اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں شرم نہیں کرتا (کسی کا لحاظ نہیں کرتا) اور جب تم کو نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگو، یہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم اس کی بیویوں سے کبھی اس کے بعد نکاح کرو یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین باتیں ہیں۔) (احزاب: 53)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابي عثمان ، عن انس ، قال: لما تزوج النبي صلى الله عليه وسلم زينب، اهدت له ام سليم حيسا في تور من حجارة، فقال انس: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اذهب فادع لي من لقيت من المسلمين "، فدعوت له من لقيت، فجعلوا يدخلون عليه فياكلون ويخرجون، ووضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على الطعام فدعا فيه، وقال فيه ما شاء الله ان يقول، ولم ادع احدا لقيته إلا دعوته، فاكلوا حتى شبعوا وخرجوا، وبقي طائفة منهم فاطالوا عليه الحديث، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يستحيي منهم ان يقول لهم شيئا، فخرج وتركهم في البيت، فانزل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه سورة الاحزاب آية 53، قال قتادة: غير متحينين طعاما، ولكن إذا دعيتم فادخلوا حتى بلغ ذلكم اطهر لقلوبكم وقلوبهن سورة الاحزاب آية 53.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حدثنا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ، أَهْدَتْ لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ، فقَالَ أَنَسٌ: فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اذْهَبْ فَادْعُ لِي مَنْ لَقِيتَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ "، فَدَعَوْتُ لَهُ مَنْ لَقِيتُ، فَجَعَلُوا يَدْخُلُونَ عَلَيْهِ فَيَأْكُلُونَ وَيَخْرُجُونَ، وَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى الطَّعَامِ فَدَعَا فِيهِ، وَقَالَ فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، وَلَمْ أَدَعْ أَحَدًا لَقِيتُهُ إِلَّا دَعَوْتُهُ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَخَرَجُوا، وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَطَالُوا عَلَيْهِ الْحَدِيثَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْيِي مِنْهُمْ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ شَيْئًا، فَخَرَجَ وَتَرَكَهُمْ فِي الْبَيْتِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ سورة الأحزاب آية 53، قَالَ قَتَادَةُ: غَيْرَ مُتَحَيِّنِينَ طَعَامًا، وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا حَتَّى بَلَغَ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ سورة الأحزاب آية 53. معمر نے ہمیں ابوعثمان (جعد) سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک بڑے برتن میں حیس بھی آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اور مسلمانوں میں سے جو بھی تمہیں ملے اسے میرے پاس بلا لاؤ" تو میں جس سے ملا اسے آپ کی طرف دعوت دی، لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، کھانا کھاتے اور نکل جاتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اس میں (برکت کی) دعا کی، اس کے بارے میں جو اللہ نے چاہا کہ آپ کہیں، آپ نے کہا۔ اور میں جس کو بھی ملا، ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا مگر اسے دعوت دی، لوگوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو گئے اور نکل گئے، ان میں سے ایک گروہ (وہیں) رہ گیا، انہوں نے آپ کی موجودگی میں طویل گفتگو کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیا محسوس کرنے لگے کہ ان سے کچھ کہیں، چنانچہ آپ نکلے اور انہیں گھر میں ہی چھوڑ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیات) نازل فرمائیں: "اے ایمان والو! تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے (اندر آنے کی) اجازت دی جائے، کھانا پکنے کا انتظار کرتے ہوئے نہیں۔"۔۔ قتادہ نے کہا: کھانے کے وقت کا انتظار کرتے ہوئے نہیں۔۔ "لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب تم اندر جاؤ۔" حتی کہ آپ نے یہاں تک تلاوت کی: "یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے اور یادہ پاکیزگی (کا طریقہ) ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں پتھر کے برتن میں مالیدہ پیش کیا۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور میرے پاس جو مسلمان بھی تمہیں ملے، لے آؤ۔“ مجھے جو بھی ملا میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے کہا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے اور کھا کر نکل جاتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک کھانے پر رکھا۔ اس میں برکت کی دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کو جو کلمات منظور تھے وہ اس کی خاطر پڑھے۔ میں نے کسی بھی ملنے والے کو دعوت دینا نہیں چھوڑا (ہر ملنے والے کو دعوی دی) لوگوں نے سیر ہو کر کھایا اور نکل گئے اور ان میں چند لوگ رہ گئے اور انہوں نے طویل گفتگو کی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کریم النفس کی بنا پر) انہیں کچھ کہنے سے شرم محسوس کرنے لگے اور انہیں گھر میں چھوڑ کر باہر نکل آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: (اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو۔ وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو، نبی کو تمہاری اس حرکت سے تکلیف ہوتی ہے، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار سے نہیں شرماتا اور جب تم ان سے (نبی کی بیویوں سے) کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔ یہی طریقہ تمہارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ اور ان کے دلوں کے لیے بھی۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|