(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: "رخص للحائض ان تنفر إذا افاضت". قال: وسمعت ابن عمر عام اول: انها لا تنفر، ثم سمعته، يقول: تنفر، إن النبي صلى الله عليه وسلم رخص لهن.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "رُخِّصَ لِلْحَائِضِ أَنْ تَنْفِرَ إِذَا أَفَاضَتْ". قَالَ: وَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ عَامَ أَوَّلَ: أَنَّهَا لَا تَنْفِرُ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: تَنْفِرُ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لَهُنَّ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حیض والی عورت کے لئے طواف افاضہ کے بعد کوچ کرنے کی اجازت دی گئی اور میں نے پہلے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ حائضہ عورت کوچ نہیں کر سکتی ہے، پھر بعد میں میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا کہ حیض والی عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف وداع کئے بغیر کوچ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1976]» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1760، 1761]، [مسلم 1328]، [ابن حبان 3898]، [الحميدي 512]۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت بھی [ابن حبان 3899] میں موصولاً بسند سابق موجود ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 1017]
وضاحت: (تشریح احادیث 1970 سے 1972) حج میں طوافِ وداع اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے، لیکن حیض و نفاس والی عورت کے لئے رخصت ہے، ایسی حالت میں ان پر سے طوافِ وداع ساقط ہو جائے گا اور وہ مکہ سے روانہ ہو سکتی ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما شروع میں یہی فتویٰ دیتے تھے کہ بنا طوافِ وداع کئے کوئی شخص مکہ سے نہیں نکل سکتا حتیٰ کہ حیض و نفاس والی عورتیں بھی خون بند ہونے تک انتظار کریں اور پاک ہونے پر طوافِ وداع کر کے رخصت ہوں، مگر جب ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث معلوم ہوئی تو انہوں نے فوراً اپنے قول سے رجوع کرلیا، اس سے ان کی سنّت سے لگن و پیروی اور اطاعت و فرماں برداری کا ثبوت ملا۔ (رضی اللہ عنہ وارضاه)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، يقول: حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني طاوس اليماني، انه سمع عبد الله بن عمر وهو يسال عن حبس النساء عن الطواف بالبيت إذا حضن قبل النفر، وقد افضن يوم النحر، فقال:"إن عائشة كانت تذكر رخصة للنساء". وذلك قبل موت عبد الله بن عمر بعام.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي طَاوُسٌ الْيَمَانِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنْ حَبْسِ النِّسَاءِ عَنْ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ إِذَا حِضْنَ قَبْلَ النَّفْرِ، وَقَدْ أَفَضْنَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ:"إِنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَذْكُرُ رُخْصَةً لِلنِّسَاءِ". وَذَلِكَ قَبْلَ مَوْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِعَامٍ.
طاؤس یمانی کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے سوال کیا گیا حائضہ عورت کے بارے میں کہ انہوں نے قربانی کے دن طواف افاضہ تو کر لیا ہو لیکن رخصت ہونے سے پہلے حیض آ جائے اور طواف وداع نہ کر سکیں تو کیا حکم ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے لئے خصوصی رخصت کا ذکر کرتی تھیں۔ اور یہ فتویٰ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی وفات سے ایک سال قبل دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 1977]» اس روایت کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن بسند صحیح بھی یہ روایت موجود ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 235/2] و [السنن الكبرىٰ للنسائي 4198]
وضاحت: (تشریح حدیث 1972) اس سے معلوم ہوا کہ پہلے وہ حیض و نفاس والی عورت کو رکے رہنے اور طوافِ وداع کر کے رخصت ہونے کا فتویٰ دیا کرتے تھے، لیکن جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح حکم معلوم ہو گیا تو اپنے قول سے رجوع کرلیا۔ سبحان اللہ! کیا شانِ اتباع و اطاعت ہے، آج بھی اگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا یہی جذبہ و ایمان ہو تو سارے اختلافاتِ فقہیہ دور ہو سکتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا إسماعيل يعني ابن ابي خالد، عن عامر، عن مسروق، انه قال لعائشة: يا ام المؤمنين، إن رجالا يبعث احدهم بالهدي مع الرجل، فيقول: إذا بلغت مكان كذا وكذا، فقلده، فإذا بلغ ذلك المكان، لم يزل محرما حتى يحل الناس. قال: فسمعت صفقتها بيدها من وراء الحجاب، وقالت:"لقد كنت افتل القلائد لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فيبعث بالهدي إلى الكعبة، ما يحرم عليه شيء مما يحل للرجل من اهله حتى يرجع الناس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَائِشَةَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ رِجَالًا يَبْعَثُ أَحَدُهُمْ بِالْهَدْيِ مَعَ الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: إِذَا بَلَغْتَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا، فَقَلِّدْهُ، فَإِذَا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ، لَمْ يَزَلْ مُحْرِمًا حَتَّى يَحِلَّ النَّاسُ. قَالَ: فَسَمِعْتُ صَفْقَتَهَا بِيَدِهَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، وَقَالَتْ:"لَقَدْ كُنْتُ أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَبْعَثُ بِالْهَدْيِ إِلَى الْكَعْبَةِ، مَا يَحْرُمُ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِمَّا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ مِنْ أَهْلِهِ حَتَّى يَرْجِعَ النَّاسُ".
مسروق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اے ام المومنین! مکہ جانے والے کے ساتھ کچھ لوگ قربانی کا جانور بھیجتے ہیں اور تاکید کر دیتے ہیں کہ جب فلاں مقام تک پہنچو تو اس کے گلے میں قلادہ ڈال دینا (تاکہ معلوم ہو کہ وہ ہدی ہے)، پھر جب مکہ جانے والا اس مقام تک پہنچ جاتا ہے (اندازے کے مطابق) تو اس وقت سے بھیجنے والا احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ لوگ (قربانی کے بعد) احرام کھول دیں؟ میں نے پردے کے پیچھے سے ان کے ہاتھ بجانے کی آواز سنی، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے لئے ہار (قلادے) بٹتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہدی (قربانی کے جانور) کعبہ کی طرف بھیجتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سے وہ پرہیز نہیں کرتے تھے جو احرام والا کرتا ہے یہاں تک کہ لوگ واپس بھی آ جاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1978]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1698]، [مسلم 1321]، [أبوداؤد 1758]، [نسائي 2774]، [ابن ماجه 3094]، [أبويعلی 4658]، [ابن حبان 4009]
وضاحت: (تشریح حدیث 1973) یعنی مدینہ میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور قربانی کے لئے مکہ بھیجتے اور ہر وہ کام سر انجام دیتے تھے جو محرم کے لئے جائز نہیں۔ یہ واقعہ حجِ وداع سے پہلے کا ہے جب سنہ 9ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج بنا کر مکہ روانہ کیا تھا اور ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے اونٹ بھی بھیجے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا کہ اگر کوئی شخص خود مکہ نہ جا سکے تو قربانی کا جانور وہاں بھیج دینا مستحب ہے، اور جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ صرف قربانی کا جانور روانہ کر دینے سے آدمی محرم نہیں ہوتا جب تک کہ خود احرام کی نیّت نہ کرے۔ (وحیدی)۔
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے لئے ہار (قلادے) بٹتی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہدیٰ (قربانی کے جانور) کو ہار پہنے ہوئے روانہ کرتے اور خود مدینہ ہی میں مقیم رہتے اور قربانی ہونے تک کسی چیز سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ (یعنی جس طرح حاجی پرہیز کرتا ہے احرام کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پرہیز نہ کرتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1979]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ «كما مر آنفا» ۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1974) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنے وطن سے کسی کے ہمراہ قربانی کا جانور بھیج دے تو وہ حلال ہی رہے گا، اس پر احرام کے احکام لاگو نہیں ہونگے۔ ہدی میں قربانی کا جانور اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری سب شامل ہیں، ان کے گلے میں ہار ڈالنا بھی ثابت ہوا، اسی کو تقلید الہدی کہتے ہیں، اور یہ ہار چاہے اون کے بنے ہوئے ہوں یا رسی کے ساتھ جوتا ڈال دیا جائے یہ بھی جائز ہے، اسی طرح اشعار الہدی بھی جائز ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے، اور تقلید و اشعار یہ اس بات کی علامت ہے کہ جانور قربانی کے لئے ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھ سے ہار یا ہار کی رسیاں بٹتی تھیں، پس عورت کا شوہر کے لئے ایسے کام انجام دینا عملِ خیر اور اسلامی نظامِ معاشرت کا حصہ ہے جو الفت و محبت کا آئینہ دار ہے، کوئی معیوب چیز نہیں، جیسا کہ بعض لوگوں کے تصورات ہیں۔ «هدانا اللّٰه وإياهم لأمور الشريعة.» آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، حدثنا وكيع، حدثنا إسرائيل، عن إبراهيم بن مهاجر، عن يوسف بن ماهك، عن امه مسيكة واثنى عليها خيرا، عن عائشة، قالت: قلت: يا رسول الله، الا نبني لك بمنى بناء يظلك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا، منى مناخ من سبق".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أُمِّهِ مُسَيْكَةَ وَأَثْنَى عَلَيْهَا خَيْرًا، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَبْنِي لَكَ بِمِنًى بِنَاءً يُظِلُّكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا، مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے لئے منیٰ میں کوئی سایہ دار چیز تعمیر کر دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، منیٰ میں جو پہلے پہنچ جائے وہی اس کی جگہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1980]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2019]، [ترمذي 881]، [ابن ماجه 3006]، [أبويعلی 4519]
وضاحت: (تشریح حدیث 1975) یعنی میدانِ منیٰ حاجیوں کے لئے وقف ہے، وہ کسی خاص فرد کی ملکیت نہیں، جو شخص پہلے پہنچے اور کسی جگہ اتر جائے تو دوسرا وہاں سے اسے اٹھا نہیں سکتا، مکان بنانے میں ایک جگہ پر اپنا قبضہ اور حق کر لینا ہے کہ دوسرا وہاں نہیں اتر سکتا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔ (وحیدی)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن خالد، حدثنا مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل مكة عام الفتح وعلى راسه مغفر، فلما نزعه جاءه رجل، فقال: يا رسول الله، هذا ابن خطل متعلق باستار الكعبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اقتلوه". قال عبد الله بن خالد: وقرئ على مالك: قال: قال ابن شهاب: ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ محرما.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ مِغْفَرٌ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"اقْتُلُوهُ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدٍ: وَقُرِئَ عَلَى مَالِكٍ: قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اتارا تو ایک شخص نے آ کر کہا: یا رسول اللہ! یہ ابن خطل ہے جو کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو قتل کر دو۔“ عبداللہ بن خالد نے کہا: امام مالک رحمہ اللہ کو پڑھ کر سنایا گیا تو انہوں نے کہا: ابن شہاب نے کہا: اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں باندھا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1981]» اس روایت کی سند صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1846]، [مسلم 1357]، [أبوداؤد 2685]، [ترمذي 1693]، [نسائي 2867]، [ابن ماجه 2085]، [أبويعلی 3539]، [ابن حبان 3719]
وضاحت: (تشریح حدیث 1976) اس روایت سے معلوم ہوا کہ وقتِ ضرورت مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہو سکتے ہیں، حرم میں قتل کرنا منع ہے لیکن یہ ابن خطل جس کا نام عبداللہ تھا مرتد ہو گیا تھا، ایک مسلمان غلام کو قتل کیا، زکاة دینے سے انکار کیا، اور دو گانے والی لونڈیاں اس نے رکھی تھیں، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں گیت گوایا اور سنا کرتا تھا، اس لئے واجب القتل تھا اور اسے حرم شریف میں ہی قتل کر دیا گیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا معاوية بن عمار الدهني، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: "دخل النبي صلى الله عليه وسلم مكة حين افتتحها وعليه عمامة سوداء بغير إحرام". قال إسماعيل: سمعه من ابي الزبير. كان مع ابيه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمَّارٍ الدُّهْنِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ حِينَ افْتَتَحَهَا وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ". قَالَ إِسْمَاعِيل: سَمِعَهُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ. كَانَ مَعَ أَبِيهِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے جس دن مکہ فتح ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر احرام کے تھے اور سر پر کالا عمامہ تھا۔ اسماعیل نے کہا: انہوں نے ابوالزبیر سے یہ سنا اور وہ اپنے والد کے ساتھ تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1982]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1358]، [نسائي 2869]، [أبويعلی 2146]، [ابن حبان 3722]
وضاحت: (تشریح حدیث 1977) پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مغفر تھا، دوسری روایت میں ہے کہ سر پر عمامہ تھا، دونوں روایتوں میں توفیق کی صورت یہ ہے کہ جب داخلِ مکہ ہوئے تو سر پر مغفر تھا پھر اتار کر عمامہ پہن لیا، نیز ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اگر حج یا عمرے کا ارادہ نہ ہو تو بغیر احرام کے مکے میں داخل ہونا جائز ہے، لہٰذا ڈرائیور، چرواہے، روزانہ آنے جانے والے ضرورت مند اشخاص بلا احرم حدودِ حرم اور مکے میں داخل ہو سکتے ہیں، کچھ علماء نے اس کی ممانعت کی ہے لیکن احادیثِ صحیحہ کے پیشِ نظر ان کا قول قابلِ عمل اور حجت نہیں ہے۔ والله اعلم۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ قربانی کریں (یا ذبح کے وقت نگرانی کریں) اور یہ کہ میں قربانی کے اونٹ کی ہر چیز ان کے گوشت، چمڑے، جھولوں کو بانٹ دوں اور ان میں سے کوئی چیز ذبح کے عوض نہ دوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1983]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1717]، [مسلم 1317]، [أبوداؤد 1769]، [ابن ماجه 3099]، [أبويعلی 269]، [الحميدي 41]
وضاحت: (تشریح حدیث 1978) یعنی قصاب کی اجرت اس سے نہ دی جائے بلکہ الگ سے دی جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کی کھال، جھول، گوشت وغیرہ سب کچھ تقسیم کردینا چاہیے، ہاں اپنے کھانے کے لئے گوشت لینے اور رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح قربانی کی کھال بھی دباغت کے بعد گھر کے استعمال میں لائی جا سکتی ہے، لیکن قصائی کی اجرت میں کھال دینا بالکل روا نہیں، اس سے غرض یہ ہے کہ قربانی کے جانور کا ہر جز اللہ کے واسطے رہے، اجرت میں دینا گویا اس کو بیچنا ہے۔ (وحیدی)۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ کی قربانی دی تھی جن میں سے تریسٹھ اپنے ہاتھ سے نحر کئے اور باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نحر کئے۔ ان سب میں سے ایک ایک ٹکڑا گوشت کا لے کر ہانڈی پکائی گئی اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی و دیگر اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تناول فرمایا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکڑ بھگے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صید ہے، یعنی شکار کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر محرم اسے شکار کرے تو مینڈھا کفارہ میں دینا ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1984]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3801]، [ترمذي 851]، [نسائي 2836]، [ابن ماجه 3085، 3236]، [أبويعلی 2127]، [الموارد 979]
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی عمار نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا لکڑ بھگا کھا سکتا ہوں؟ فرمایا: کھا سکتے ہو، میں نے کہا: کیا وہ شکار (کیا جا سکتا) ہے؟ فرمایا: ہاں، میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا: آپ لکڑ بھگے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کھا سکتے ہیں؟ کہا: مجھے اس کا کھانا پسند نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1985]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1791]، [ابن ماجه 3236]، [أبويعلی 7127]، [ابن حبان 3965]، [الموارد 1068]، [معرفة السنن والآثار 19216]، [نيل الأوطار 84/5-85] و [مشكل الآثار 370/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 1979 سے 1981) ضبع ایک جانور ہے، بعض شراح حدیث نے اس کا ترجمہ گوہ یا بجو سے کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ یہ کتے کے برابر تقریباً کتے ہی کی طرح کا ایک جانور ہے جو شکار کیا جا سکتا ہے، کچھ علماء نے اس کے شکار سے درندہ ہونے کے سبب منع کیا ہے۔ والله اعلم۔