سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی تھمے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 752) اس حدیث میں ایک جگہ رُکے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرنے کا حکم ہے اور باب ہے ایسے پانی سے وضو کرنے کا، توافق کی صورت یہ ہے کہ اگر ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کیا گیا تو اس سے وضو نہیں کر سکتے جیسا کہ «ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيْهِ» سے واضح ہوتا ہے، یعنی انسان پینے، وضو اور غسل کے لئے اس پانی کا محتاج ہو سکتا ہے لیکن جب اس کو پیشاب سے نجس کر دیا تو ایسا پانی استعمال میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگل کے اس پانی کے بارے میں دریافت کیا گیا، جس سے چوپائے اور درندے پانی پیتے ہیں (اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی کی مقدار دو قلہ تک پہنچ جائے تو اس کو کوئی چیز گنده (ناپاک) نہیں کرتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 758]» اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن کتب احادیث میں دوسری صحیح سند سے بھی موجود ہے، اس لئے اس کا معنی صحیح اور قابلِ استدلال ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 63]، [ترمذي 67]، [نسائي 52]، [ابن ماجة 517، 518]، [مسند أبى يعلی 5590]، [ابن حبان 1249] و [موارد الظمآن 117]
وضاحت: (تشریح حدیث 753) قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں، اس کی تثنیہ قلتان ہے جو حالتِ جر میں قلتین ہوئی، موجودہ پیمانوں کے مطابق قلتین کی مقدار دو سو ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی مقدار دو مٹکوں سے کم ہوگی تو محض نجاست کے گرنے ہی سے وہ ناپاک ہو جائے گا خواہ رنگ، بو، ذائقہ بدلے یا نہ بدلے، اور اگر پانی کی مقدار دو قلہ سے زیادہ ہے تو وہ اس وقت تک نجس نہ مانا جائے گا جب تک کہ مذکورہ اوصافِ ثلاثہ میں سے کوئی وصف نہ بدل جائے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے شرح بلوغ المرام، مولانا صفی الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ، حدیث رقم (4)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق ولكن الحديث صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کے بارے میں دریافت کیا گیا جس سے درند و چرند پانی پیتے ہیں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی کی مقدار دو بڑے مٹکوں کے برابر ہو تو وہ نجاست کو قبول ہی نہیں کرتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 759]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 63]، [ترمذي 67]، [نسائي 52]، [ابن ماجه 517]
وضاحت: (تشریح حدیث 754) یعنی ایسا پانی مجرد نجاست کے اس میں گر نے سے نجس نہیں ہوتا جب تک کہ اوصافِ ثلاثہ میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو جائے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے کیونکہ میں بیمار تھا اور بیہوشی طاری ہو گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا، لہٰذا مجھے ہوش آ گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 760]» یہ صحیح متفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري 194]، [مسلم 1616]، [مسند الموصلي 2018]، [صحيح ابن حبان 1266] و [مسند الحميدي 1264]
وضاحت: (تشریح حدیث 755) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر وضو کا مستعمل پانی ڈالنا اس بات کی دلیل ہے کہ وضو یا غسل کا مستعمل پانی پاک ہے، نیز اس حدیث سے بیمار پرسی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور برکت بھی معلوم ہوئی کہ انہیں ہوش آ گیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا يزيد بن عطاء، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: قامت امراة من نساء النبي صلى الله عليه وسلم فاغتسلت في جفنة من جنابة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم إلى فضلها يستحم، فقالت: إني قد اغتسلت فيه قبلك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إنه ليس على الماء جنابة"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَتْ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَسَلَتْ فِي جَفْنَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فَضْلِهَا يَسْتَحِمُّ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ اغْتَسَلْتُ فِيهِ قَبْلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُ لَيْسَ عَلَى الْمَاءِ جَنَابَةٌ"..
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور پانی کے ایک ٹب سے غسل جنابت کیا، پھر ان کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کے لئے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ میں آپ سے پہلے اس ٹب سے غسل کر چکی ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک پانی جنبی نہیں ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 761]» اس روایت کی سند میں اضطراب ہے، لیکن دوسری اسانیدِ صحیحہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے، اس لئے متن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 68]، [ترمذي 65]، [نسائي 328]، [ابن ماجه 370]، [أبويعلی 2411]، [ابن حبان 1241]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث صحيح بشواهده
دوسری سند سے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسے ہی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 762]» اس روایت کی سند بھی مثل سابق ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: تخریج سابق و [مسند الموصلي 7098]
وضاحت: (تشریح احادیث 756 سے 758) ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ عورت کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا جائز ہے اور وضو بدرجہ اولی جائز ہوگا کیونکہ ٹب سے پانی لے کر غسل کرنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی جنبی نہیں ہوتا۔ “ کچھ صحیح روایات میں عورت کے بچے پانی سے وضو اور غسل کرنے کی ممانعت آئی ہے لیکن جواز والی احادیث پر علماء کا اتفاق ہے اور نہی تنزیہہ پر محمول کی گئی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن حميدة بنت عبيد بن رفاعة، عن كبشة بنت كعب بن مالك وكانت تحت ابن ابي قتادة، ان ابا قتادة رضي الله عنه دخل عليها فسكبت له وضوءا، فجاءت هرة تشرب منه، فاصغى لها ابو قتادة الإناء حتى شربت قالت كبشة فرآني انظر، فقال: اتعجبين يا بنت اخي؟، قلت: نعم، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إنها ليست بنجس، إنما هي من الطوافين عليكم والطوافات".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَتْ تَحْتَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَكَبَتْ لَهُ وَضُوءًا، فَجَاءَتْ هِرَّةٌ تَشْرَبُ مِنْهُ، فَأَصْغَى لَهَا أَبُو قَتَادَةَ الْإِنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ قَالَتْ كَبْشَةُ فَرَآنِي أَنْظُرُ، فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا بِنْتَ أَخِي؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّمَا هِيَ مِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ".
کبشہ بنت کعب بن مالک سے مروی ہے جو سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی بہو تھیں کہ سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے تو وہ (بیٹے کی بیوی) ان کے لئے وضو کا پانی لائیں، اتنے میں ایک بلی آئی اور پانی پینے لگی تو سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے برتن کو جھکا دیا تاکہ وہ (بلی سیر ہو کر آسانی سے) پانی پی لے۔ کبشۃ نے کہا: سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے مجھے اس طرح دیکھتے ہوئے پایا تو کہا: اے بھتیجی! تو تعجب کر رہی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”یہ (بلی) نجس نہیں ہے، کیونکہ یہ ہر وقت تمہارے اوپر پھرنے والیوں میں سے ہے۔“(یعنی یہ ہمہ وقت آمد و رفت رکھنے والا گھر یلو جانور ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 763]» اس حدیث کی سند جید ہے، اصحاب سنن نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 75]، [ترمذي 92]، [نسائي 68]، [ابن ماجه 367]، [ابن حبان 1299]، [موارد الظمآن 121]
وضاحت: (تشریح حدیث 758) اس سے معلوم ہوا کہ بلی کا جھوٹا نجس و ناپاک یا پلید نہیں ہے بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات بار دھو ڈالو، اور اس کو آٹھویں بار مٹی سے رگڑو۔“(اس سے مراد ایک بار مٹی سے رگڑنا ہے اور عدد مقصود نہیں)۔
وضاحت: (تشریح حدیث 759) کتا نجس ہے اور اس کا لعاب بھی ناپاک اور جراثیم سے لبریز ہوتا ہے، جیسا کہ جدید سائنس نے اعتراف کیا، شارع حکیم نے حفظانِ صحت کے لئے حکم دیا کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات بار پانی سے اور ایک بار مٹی سے رگڑ کر دھونا چاہئے، صحیح حدیث میں ہے: «اولاهن بالتراب» پہلی بار مٹی سے رگڑ ا جائے۔ کچھ لوگ کتے کے جھوٹے برتن کو تین بار دھونے کو کافی سمجھتے ہیں جو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سراسر خلاف ہے۔ نیز اس حکم میں ہر قسم کے کتے شامل ہیں خواہ وہ پالتو ہوں یا حراسہ و شکار کے یا کسی بھی نسل کے، ان کا جھوٹا پانی ناپاک ہے، اس کو پینا اور اس پانی سے وضو کرنا درست نہیں۔ پچھلی تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ: سمندر کا پانی پاک ہے، اسی طرح بہت زیادہ مقدار میں ٹھہرا ہوا کنویں اور حوض وغیرہ کا پانی بھی پاک ہے، عورت کے استعمال سے بچا ہوا پانی بھی پاک ہے، بلی کا جھوٹا پانی بھی پاک ہے، اس سے وضو کرنا جائز ہے، ہاں پانی اگر تھوڑا ہو یا اس کے اوصاف: رنگ، بو اور ذائقہ بدل گیا ہو یا کتے نے اس پانی میں منہ ڈال دیا ہو تو وہ پانی ناپاک ہے، اس سے وضو کرنا جائز نہیں۔ واللہ علم
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک چوھیا گھی میں گر کر مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چوهيا اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال پھینکو اور (باقی بچا گھی) کھا لو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 760) نسائی کی ایک روایت میں اُم المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر گھی جما ہوا ہے تو آس پاس کا گھی نکال دو اور پگھلا ہوا اگر ہے تو اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ “ یعنی اسے (کھانے پینے میں) استعال نہ کرو۔ دیکھئے: [نسائي 4266]، [أبوداؤد عن أبي هريرة 3842] ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى بن اسد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبرين، فقال: "إنهما ليعذبان في قبورهما، وما يعذبان في كبير: كان احدهما يمشي بالنميمة، وكان الآخر لا يستنزه عن البول، او من البول"، قال:"ثم اخذ جريدة رطبة فكسرها، فغرز عند راس كل قبر منهما قطعة"، ثم قال:"عسى ان يخفف عنهما حتى تيبسا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، فَقَالَ: "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ: كَانَ أَحَدُهُمَا يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، وَكَانَ الْآخَرُ لَا يَسْتَنْزِهُ عَنْ الْبَوْلِ، أَوْ مِنْ الْبَوْلِ"، قَالَ:"ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَكَسَرَهَا، فَغَرَزَ عِنْدَ رَأْسِ كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا قِطْعَةً"، ثُمَّ قَالَ:"عَسَى أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا حَتَّى تَيْبَسَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں، ان میں سے ایک تو چغل خوری کرتا پھرتا تھا، اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔“ راوی نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی، اس کو چیرا اور ہر قبر کے سرہانے ایک ٹکڑا گاڑھ دیا، پھر فرمایا: ”شاید جب تک یہ ٹہنیاں نہ سوکھیں اس وقت تک ان کا عذاب ہلکا کر دیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 766]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے، اور اصحاب السنن نے بھی اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [بخاري 218]، [مسلم 292]، [أبوداؤد 20]، [ترمذي 70]، [نسائي 31]، [ابن ماجه 347]، [أبويعلی 2050]، [ابن حبان 3128]
وضاحت: (تشریح حدیث 761) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چغل خوری اور پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا گناہِ کبیرہ ہے جس کی وجہ سے قبر میں عذاب دیا جائے گا، ہری ٹہنی لگانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ ان کا عذاب ہلکا کر دیا جائے جس کو الله تعالیٰ نے قبول فرمایا، کسی اور کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں کیوں کہ یہ امر غیبی ہے، کسی کو کیا معلوم قبر کے اندر کیا ہو رہا ہے، نیز اندازاً ایسا کرنا صاحبِ قبر کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے کہ اس کو عذاب ہو رہا ہے۔ واللہ اعلم۔