سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات بار دھو ڈالو، اور اس کو آٹھویں بار مٹی سے رگڑو۔“(اس سے مراد ایک بار مٹی سے رگڑنا ہے اور عدد مقصود نہیں)۔
وضاحت: (تشریح حدیث 759) کتا نجس ہے اور اس کا لعاب بھی ناپاک اور جراثیم سے لبریز ہوتا ہے، جیسا کہ جدید سائنس نے اعتراف کیا، شارع حکیم نے حفظانِ صحت کے لئے حکم دیا کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات بار پانی سے اور ایک بار مٹی سے رگڑ کر دھونا چاہئے، صحیح حدیث میں ہے: «اولاهن بالتراب» پہلی بار مٹی سے رگڑ ا جائے۔ کچھ لوگ کتے کے جھوٹے برتن کو تین بار دھونے کو کافی سمجھتے ہیں جو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سراسر خلاف ہے۔ نیز اس حکم میں ہر قسم کے کتے شامل ہیں خواہ وہ پالتو ہوں یا حراسہ و شکار کے یا کسی بھی نسل کے، ان کا جھوٹا پانی ناپاک ہے، اس کو پینا اور اس پانی سے وضو کرنا درست نہیں۔ پچھلی تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ: سمندر کا پانی پاک ہے، اسی طرح بہت زیادہ مقدار میں ٹھہرا ہوا کنویں اور حوض وغیرہ کا پانی بھی پاک ہے، عورت کے استعمال سے بچا ہوا پانی بھی پاک ہے، بلی کا جھوٹا پانی بھی پاک ہے، اس سے وضو کرنا جائز ہے، ہاں پانی اگر تھوڑا ہو یا اس کے اوصاف: رنگ، بو اور ذائقہ بدل گیا ہو یا کتے نے اس پانی میں منہ ڈال دیا ہو تو وہ پانی ناپاک ہے، اس سے وضو کرنا جائز نہیں۔ واللہ علم