سنن دارمي
من كتاب الطهارة
وضو اور طہارت کے مسائل
55. باب قَدْرِ الْمَاءِ الذي لاَ يَنْجَسُ:
اس پانی کی مقدار کا بیان جو نجس نہیں ہوتا
حدیث نمبر: 754
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنْ الْمَاءِ يَكُونُ بِالْفَلَاةِ مِنْ الْأَرْضِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنْ الدَّوَابِّ وَالسِّبَاعِ؟، فَقَالَ: "إِذَا بَلَغَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگل کے اس پانی کے بارے میں دریافت کیا گیا، جس سے چوپائے اور درندے پانی پیتے ہیں (اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی کی مقدار دو قلہ تک پہنچ جائے تو اس کو کوئی چیز گنده (ناپاک) نہیں کرتی۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 758]»
اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن کتب احادیث میں دوسری صحیح سند سے بھی موجود ہے، اس لئے اس کا معنی صحیح اور قابلِ استدلال ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 63]، [ترمذي 67]، [نسائي 52]، [ابن ماجة 517، 518]، [مسند أبى يعلی 5590]، [ابن حبان 1249] و [موارد الظمآن 117]
وضاحت: (تشریح حدیث 753)
قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں، اس کی تثنیہ قلتان ہے جو حالتِ جر میں قلتین ہوئی، موجودہ پیمانوں کے مطابق قلتین کی مقدار دو سو ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی مقدار دو مٹکوں سے کم ہوگی تو محض نجاست کے گرنے ہی سے وہ ناپاک ہو جائے گا خواہ رنگ، بو، ذائقہ بدلے یا نہ بدلے، اور اگر پانی کی مقدار دو قلہ سے زیادہ ہے تو وہ اس وقت تک نجس نہ مانا جائے گا جب تک کہ مذکورہ اوصافِ ثلاثہ میں سے کوئی وصف نہ بدل جائے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے شرح بلوغ المرام، مولانا صفی الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ، حدیث رقم (4)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق ولكن الحديث صحيح