كتاب الصدقات کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 13. بَابُ: مَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَعَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ باب: جو قرض یا بےسہارا اولاد چھوڑ جائے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمے ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں وفات پا جاتا، اور اس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ”کیا اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ چھوڑا ہے“؟ تو اگر لوگ کہتے: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو“، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتوحات عطا کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں، تو جو کوئی وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، اور جو کوئی مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفرائض 4 (1619)، سنن النسائی/الجنائز 67 (1965)، (تحفة الأشراف: 15315)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الکفالة 5 (2298)، النفقات 15 (5371)، سنن الترمذی/الجنائز 69 (1070)، حم (2/290، 453)، سنن الدارمی/البیوع 54 (2636) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسلام کے ابتدائی عہد میں جب مال و دولت کی کمی تھی تو جب کوئی مقروض مرتا نبی کریم ﷺ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرماتے وہ پڑھ لیتے، پھر جب اللہ تعالی نے فتوحات دیں، اور مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے حکم دیا کہ اب جو کوئی مسلمان مقروض مرے اس کا قرضہ میں ادا کروں گا، اسی طرح بے سہارا بال بچے چھوڑ جائے تو ان کی پرورش کا ذمہ بھی میر ے سر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کے بال بچوں کا خرچ مجھ پر ہے، اور ان کا معاملہ میرے سپرد ہے، اور میں مومنوں کے زیادہ قریب ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الخراج 15 (2954)، (تحفة الأشراف: 2605)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/296، 371)، وھوطرف حدیث تقدم برقم: 45) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|