(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إذا توفي المؤمن في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه الدين فيسال:" هل ترك لدينه من قضاء؟"، فإن قالوا: نعم، صلى عليه. وإن قالوا: لا، قال:" صلوا على صاحبكم" فلما فتح الله على رسوله صلى الله عليه وسلم الفتوح قال:" انا اولى بالمؤمنين من انفسهم فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِذَا تُوُفِّيَ الْمُؤْمِنُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَسْأَلُ:" هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ؟"، فَإِنْ قَالُوا: نَعَمْ، صَلَّى عَلَيْهِ. وَإِنْ قَالُوا: لَا، قَالَ:" صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ" فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفُتُوحَ قَالَ:" أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں وفات پا جاتا، اور اس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ”کیا اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ چھوڑا ہے“؟ تو اگر لوگ کہتے: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو“، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتوحات عطا کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں، تو جو کوئی وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، اور جو کوئی مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اسلام کے ابتدائی عہد میں جب مال و دولت کی کمی تھی تو جب کوئی مقروض مرتا نبی کریم ﷺ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرماتے وہ پڑھ لیتے، پھر جب اللہ تعالی نے فتوحات دیں، اور مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے حکم دیا کہ اب جو کوئی مسلمان مقروض مرے اس کا قرضہ میں ادا کروں گا، اسی طرح بے سہارا بال بچے چھوڑ جائے تو ان کی پرورش کا ذمہ بھی میر ے سر ہے۔
هل ترك لدينه من قضاء فإن حدث أنه ترك وفاء صلى عليه وإلا قال صلوا على صاحبكم أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه من ترك مالا فهو لورثته
هل ترك لدينه من قضاء فإن قالوا نعم صلى عليه وإن قالوا لا قال صلوا على صاحبكم فلما فتح الله على رسوله الفتوح قال أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه ومن ترك مالا فهو لورثته
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2415
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبئ اکرم ﷺ کا مقروض شخص کا جنازہ نہ پڑھنا تنبیہ کےلیے تھا۔
(2) اسلامی حکومت کوایسے مقروض افراد کی مالی امداد کرنی چاہیے جو قرض ادا کرنے کےقابل نہیں۔
(3) اگر کوئی شخص مقروض فوت ہوجائے، جب کہ اس کے وارث نادار ہوں اورادائیگی کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو اسلامی حکومت کا فرض ہےکہ قرض خواہوں کی بیت المال سےادائیگی کرے۔
(4) ناداروں یتیموں اورکام نہ کرسکنے والے افراد کی کفالت اسلامی حکومت کی ذمے داری ہے۔
(5) مزید فوائد کےلیے دیکھیے حدیث: 2407۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2415
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4157
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے مرد کی میت کو لایا جاتا، جس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ”کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے؟“ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا، اس نے قرض کو ادا کرنے کا سامان چھوڑا ہے، تو آپﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے، وگرنہ فرماتے: ”اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو۔“ اور جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4157]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرضہ کا مسئلہ بڑا سنگین ہے، انسان کو قرض کی ادائیگی میں، غفلت اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیے، اگر کسی ضرورت یا مجبوری سے قرضہ لینے کی ضرورت پیش آئے، تو اس کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ معلوم نہیں کب موت کا پیغام آ جائے، اور اگر کوئی اپنے فقر و فاقہ سے اپنا قرضہ ادا نہ کر سکے، تو حکومت کو اس کا انتظام کرنا چاہیے، یا کم از کم اس کے لواحقین کو یہ ذمہ داری قبول کرنا چاہیے، اور مالکیہ و شافعیہ کے نزدیک، حکومت کا اس کا انتظام، زکاۃ کی مد سے بھی کر سکتی ہے، اور احناف و حنابلہ کے نزدیک، زکاۃ سے اس کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، لیکن بقول علامہ تقی، حنابلہ اور احناف کا استدلال، لام تملیک سے ہے، یعنی ﴿لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ﴾ میں لام، تملیک کے لیے ہے، کہ ان کے قبضہ میں دیا جائے، جبکہ ﴿فِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ﴾ ، میں لام ہے، ہی نہیں ہے۔ اس لیے نماز میں (مقروض) کے لیے زکاۃ کا مال خرچ کے لیے تملیک کی شرط نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ گردنوں کی آزادی اور تاوان میں آئے ہوؤں کو نکالنے میں خرچ کیا جائے، اس لیے یہاں تملیک کا سوال نہیں ہے، یہ کہا جائے، مردہ کی مال تملیک نہیں ہو سکتا، اس لیے اس کی طرف سے قرضہ زکوٰۃ کی مد سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔ نیز جب امام (حکومت) نے زکاۃ وصول کر لی تو اس کی ملکیت میں آ چکی اب نئی ملکیت کی ضرورت نہیں۔ (تکملہ ج 2، ص 45)