كتاب الصدقات کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 4. بَابُ: مَنْ وَقَفَ باب: جس نے وقف کیا اس کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے مشورہ لیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں کچھ مال ملا ہے، اتنا عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھو اور اسے (یعنی اس کے پھلوں اور منافع کو) صدقہ کر دو“۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، اس طرح کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اسے وراثت میں دیا جائے، اور وہ صدقہ رہے فقیروں اور رشتہ داروں کے لیے، غلاموں کے آزاد کرانے اور مجاہدین کے سامان تیار کرنے کے لیے، اور مسافروں اور مہمانوں کے لیے اور جو اس کا متولی ہو وہ اس میں دستور کے مطابق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے لیکن مال جمع نہ کرے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 19 (2737)، الوصایا 22 (6764)، 28 (2772)، 32 (2777)، صحیح مسلم/الوصایا 4 (1632)، سنن ابی داود/الوصایا 13 (2878)، سنن الترمذی/الأحکام 36 (1375)، سنن النسائی/الإحباس 1 (3629)، (تحفة الأشراف: 7742)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/55، 125) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإحباس 2 (3633)، (تحفة الأشراف: 7902) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن ابی عمر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر طسفيان عن عبدالله عن نافع عن ابن عمر» کے طریق سے پائی ہے، وہ (ابن عمر) کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر انہوں نے اسی جیسی روایت ذکر کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 7741) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|