كتاب الصلاة کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل 4. بَابُ: الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ باب: سخت گرمی ہو تو ظہر کو ٹھنڈا کر کے (یعنی تاخیر سے) پڑھنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈی کر لو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تقرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13862)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الموا قیت 9 (533)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/الصلا ة 4 (402)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (28)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 400، 411، 462)، سنن الدارمی/الرقاق 119 (2887) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ظہر کو جلدی نہ پڑھنے اور باقی نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی افضلیت کے سلسلہ میں جو روایتیں آئی ہیں، وہ باہم معارض نہیں ہیں کیونکہ اول وقت میں پڑھنے والی روایتیں عام یا مطلق ہیں، اور ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے والی روایت مخصوص اور مقید ہے، اور عام و خاص میں کوئی تعارض نہیں ہوتا، نہ ہی مطلق و مقید میں کوئی تعارض ہوتا ہے، رہی خباب رضی اللہ عنہ والی روایت جو صحیح مسلم میں آئی ہے، اور جس کے الفاظ یہ ہیں: «شكونا إلى النبي صلى الله عليه وسلم حرالرمضائ فلم يشكنا» ”ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دھوپ کی تیزی کی شکایت کی لیکن آپ نے ہماری شکایت نہ مانی“ تو «ابراد» سے قدر زائد کے مطالبہ پر محمول کی جائے گی، کیونکہ «ابراد» یہ ہے کہ ظہر کی نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ دیواروں کا اتنا سایہ ہو جائے جس میں چل کر لوگ مسجد آ سکیں، اور گرمی کی شدت کم ہو جائے، اور «ابراد» سے زائد تاخیر یہ ہے کہ «رمضاء» کی گرمی زائل ہو جائے، اور یہ کبھی کبھی خروج وقت کو مستلزم ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے اس مطالبہ کو قبول نہیں کیا، نیز بہت سے علماء نے اس حدیث کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ جب شدت کی گرمی ہو تو ظہر میں دیر کرنا مستحب ہے، اور اس حدیث کی شرح میں مولانا وحید الزماں حیدر آبادی فرماتے ہیں: حدیث کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب گرمی کی شدت ہو تو اس کو نماز سے ٹھنڈا کرو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے، اور جہنم کی بھاپ بجھانے کے لئے نماز سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے، اور اس مطلب پر یہ تعلیل صحیح ہو جائے گی، اور یہ حدیث اگلے باب کی حدیثوں کے خلاف نہ رہے گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی سخت ہو جائے تو ظہر کو ٹھنڈا کر لیا کرو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/الصلاة 4 (402)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، (تحفة الأشراف: 13226) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جہنم جاڑے کے دنوں میں اندر کی طرف سانس لیتی ہے اور گرمی کے دنوں میں سانس کو باہر نکالتی ہے جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے، بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ گرمی کا تعلق سورج نکلنے سے ہے لیکن یہ علت صحیح نہیں ہے، کیونکہ اونچے مقام پر گرمی نہیں ہوتی جب کہ سورج اس سے قریب ہوتا ہے، اور اصل وجہ گرمی اور جاڑے کی یہ ہے کہ زمین گرم ہو کر اپنی سانس یعنی بخارات باہر نکالتی ہے، اس سے گرمی معلوم ہوتی ہے اور کوئی مانع اس سے نہیں ہے کہ جہنم کا ایک ٹکڑا زمین کے اندر ہو، اور جیالوجی (علم الارض) سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اندر ہزار فٹ پر ایسی حرارت ہے کہ اگر وہاں حیوان پہنچیں تو فوراً مر جائیں، اور اس سے بھی زیادہ نیچے ایسی گرمی ہے کہ لوہا، تانبہ اور شیشہ پگھلا ہوا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو جہنم سے بچائے، آمین، نیز جمہور نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ بطور تشبیہ و تقریب کہا گیا ہے یعنی یہ گویا جہنم کی آگ کی طرح ہے،اس لئے اس کی ضرر رسانیوں سے بچو، اور احتیاط کرو، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ مغرب جلدی پڑھتے تھے، بعض روایتوں میں شفق ڈوبنے تک مغرب کو مؤخر کرنے کا جو ذکر ملتا ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 9 (538)، (تحفة الأشراف: 4006)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/52، 53، 59) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز دوپہر میں پڑھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11526، ومصباح الزجاجة: 255)، و قد أخرجہ: مسند احمد (4/ 250) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8044، ومصباح الزجاجة: 256) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|