كتاب الصلاة کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل 3. بَابُ: وَقْتِ صَلاَةِ الظُّهْرِ باب: نماز ظہر کا وقت۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 33 (618)، سنن ابی داود/الصلاة 4 (806)، سنن النسائی/الافتتاح 60 (981)، (تحفة الأشراف: 2179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/106) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کی نماز جس کو تم ظہر کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، 13 (547)، 23 (568)، 38 (598)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن ابی داود/الصلاة 4 (398)، سنن النسائی/المواقیت 1 (496)، 16 (526)، 20 (531)، (تحفة الأشراف: 11605)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 4 (155)، مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کو نظر انداز کر دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3512)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 33 (619)، سنن النسائی/المواقیت 2 (498) مسند احمد (5/108، 110) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی نماز کی تاخیر گوارا نہ کی، اور ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے اسے نظر انداز کر دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9545، ومصباح الزجاجة: 254) (صحیح)» (اس سند میں مالک الطائی غیر معروف ہیں، اور معاویہ بن ہشام صدوق ہیں، وہم کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہوا کہ زوال (سورج ڈھلنے) کے بعد تھوڑی سی دیر کریں نہ کہ ایک مثل کے بعد پڑھیں، ایک مثل کے بعد تو ظہر کا وقت ہی نہیں رہتا، اور ٹھنڈک سے یہ مراد ہے کہ دوپہر کی دھوپ میں ذرا نرمی آ جائے بالکل ٹھنڈک تو شام تک بھی نہیں ہوتی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|