كتاب الصلاة کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل 12. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ النَّوْمِ قَبْلَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ وَعَنِ الْحَدِيثِ بَعْدَهَا باب: عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کی ممانعت۔
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، 13 (547)، 23 (568)، 38 (599)، سنن الترمذی/الصلاة 11 (168)، 20 (529)، (تحفة الأشراف: 11606)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن ابی داود/الصلاة 3 (398)، الأدب 27 (4849)، سنن النسائی/المواقیت 1 (496)، 16 (526)، مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 139 (1469) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو، اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں، نیز بات چیت سے مراد لایعنی بات چیت ہے جس سے دنیا اور آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17497، ومصباح الزجاجة: 258)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/264) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیکار اور غیر ضروری باتیں عشاء کے بعد کرنی مکروہ ہے، اور کراہت کی علت یہ ہے کہ شاید رات زیادہ گزر جائے اور تہجد کے لئے آنکھ نہ کھلے، یا فجر کی نماز اول وقت اور باجماعت ادا نہ ہو سکے، اور یہ وجہ بھی ہے کہ سوتے میں گویا آدمی مر جاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ خاتمہ عبادت پر ہو، نہ دنیا کی باتوں پر، اگر دین یا دنیا کی ضروری باتیں ہوں تو ان کا کرنا جائز ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عشاء کے بعد مسلمانوں کے کاموں کے متعلق ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے باتیں کیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کے بعد بات چیت پر ہماری مذمت فرمائی یعنی اس پر ہمیں جھڑکا اور ڈانٹا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9286 ومصباح الزجاجة: 703)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/389، 410) (صحیح) (ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2435)»
وضاحت: ۱؎: مشہور حسن کے نسخہ میں «زجرنا عنه» ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|