كتاب الصلاة کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل 13. بَابُ: النَّهْيِ أَنْ يُقَالَ صَلاَةُ الْعَتَمَةِ باب: عشاء کو عتمہ کی نماز کہنے کی ممانعت۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اعراب (دیہاتی لوگ) تمہاری نماز کے نام میں تم پر غالب نہ آ جائیں، اس لیے کہ (کتاب اللہ میں) اس کا نام عشاء ہے، اور یہ لوگ اس وقت اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے اسے «عتمہ» کہتے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 39 (644)، سنن ابی داود/الأدب 86 (4984)، سنن النسائی/المواقیت 22 (542)، (تحفة الأشراف: 8582)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/10، 19، 49، 144) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عرب کے لوگ سورج ڈوبنے کے بعد جب اندھیرا ہو جاتا تو اپنے جانوروں کا دودھ دوہتے تھے، تاکہ مانگنے والے محتاج دیکھ نہ سکیں اور ان کو دودھ نہ دینا پڑے، پھر وہی لوگ عشاء کی نماز کو «عتمہ» کہنے لگے، کیونکہ اس کا وقت یہی تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس نام کو مکروہ جانا، کیونکہ محتاجوں کو نہ دینا، اور صدقے کے ڈر سے مال کو چھپانا،بخل اور ایک بری صفت ہے، اور نماز ایک عمدہ عبادت ہے، لہذا اس کا یہ نام بالکل غیر موزوں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی اس نماز کو «عشاء» کہا ہے نہ کہ «عتمہ»،پس وہی نام بہتر ہے اس پر بھی علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ «عتمہ» کا لفظ نہ استعمال کیا جائے، اور اس کو اصطلاحی نام «عشاء» سے پکارا جائے، بعض حدیثوں میں خود «عتمہ» کا لفظ «عشاء» کی نماز کے لئے آیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعراب (بدوی) تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں تم پر غالب نہ آ جائیں“، ابن حرملہ نے یہ اضافہ کیا ہے: اس کا نام «عشاء» ہے، اور یہ اعرابی اسے اس وقت اپنی اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے «عتمه» کہتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13065، ومصباح الزجاجة: 705)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/433، 438) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|