عروہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: عروہ! تمہارے نانا (ابوبکر) اور والد (زبیر) ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح»”جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا ”(سورة آل عمران: 172)، یعنی ابوبکر اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما۔
وضاحت: ۱؎: پوری آیت یوں ہے: «الذين استجابوا لله والرسول من بعد مآ أصابهم القرح للذين أحسنوا منهم واتقوا أجر عظيم» یعنی: ”جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد اللہ اور رسول کا کہنا مانا، جو لوگ ان میں نیک و صالح اور پرہیز گار ہوئے ان کو بڑا ثواب ہے“(سورة آل عمران: 172)۔ اس آیت کا شان نزول امام بغوی نے یوں ذکر کیا ہے کہ جب ابو سفیان اور کفار مکہ جنگ احد سے واپس لوٹے، اور مقام روحا میں پہنچے تو اپنے لوٹنے پر نادم و شرمندہ ہوئے اور ملامت کی، اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد کو نہ قتل کیا، نہ ان کی عورتوں کو قید کیا، پھر ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ دوبارہ واپس چل کر مسلمانوں کا کام تمام کر دیا جائے، جب یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت اکٹھا کی، اور ابوسفیان اور کفار مکہ کے تعاقب میں روانہ ہونا چاہا، اور اعلان کر دیا کہ ہمارے ساتھ غزوہ احد کے شرکاء کے علاوہ اور کوئی نہ نکلے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، نبی کریم ﷺ، ابوبکر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، سعید، عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن الیمان، اور ابوعبیدہ بن جراح وغیرہم کی معیت میں ستر آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے، اور حمراء الأسد (مدینہ سے بارہ میل (۱۹ کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک مقام) پر پہنچے، اس کے بعد بغوی رحمہ اللہ نے یہی روایت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے، غرض وہاں معبد خزاعی نامی ایک آدمی تھا جو نبی کریم ﷺ سے محبت رکھتا تھا، اور وہاں کے بعض لوگ ایمان لا چکے تھے تو معبد نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ہم کو آپ کے اصحاب کے زخمی ہونے کا بہت رنج ہوا،غرض وہ وہاں سے ابوسفیان کے پاس آیا، اور ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شجاعت کی خبر دی، ابوسفیان اور ان کے ساتھی اس خبر کو سن کر ٹھنڈے ہو گئے، اور مکہ واپس لوٹ گئے، غرض اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی فضیلت میں یہ آیت نازل فرمائی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16939)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي 16 (4077)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 6 (2418)، مسند احمد (1/164، 166) (صحیح)»
It was narrated from Hisham bin 'Urwah that his father said:
''Aishah said to me: 'O 'Urwah, your two fathers were of those who answered (the Call of) Allah and the Messenger (Muhammed) after being wounded," (they were) Abu Bakr and Zubair.''
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث124
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے: ﴿الَّذينَ استَجابوا لِلَّهِ وَالرَّسولِ مِن بَعدِ ما أَصابَهُمُ القَرحُ لِلَّذينَ أَحسَنوا مِنهُم وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ﴾(آل عمران: 172) ”جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو قبول کیا، اس کے بعد کہ انہیں زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیز گاری اختیار کی، ان کے لیے بہت زیادہ اجر ہے۔“
(2) اس آیت میں غزوہ احد کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین جب واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا موقع گنوا دیا ہے، چنانچہ انہوں نے واپس پلٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ خطرہ محسوس کیا کہ مکی لشکر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، چنانچہ آپ نے اعلان فرما دیا کہ جنگ احد میں حصہ لینے والے تمام مجاہد دوبارہ کوچ کریں۔ آپ نے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک تعاقب کیا، جب مشرکین کو یہ خبر پہنچی تو وہ مرعوب ہو گئے اور مدینہ پر حملہ کیے بغیر واپس چلے گئے۔ (دیکھیے: الرحیق المختوم، ص: 386)
(3) حضرت عروہ بن زبیر ؓ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں۔ ان کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ہیں۔ اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے نانا اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ان کے والد ہوئے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 124