سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 81
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ، بِاللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہو سکتا: اللہ واحد پر جس کا کوئی شریک نہیں، میرے اللہ کے رسول ہونے پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر، اور تقدیر پر“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القدر 10 (2145)، (تحفة الأشراف: 10089)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/97، 133) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (2145)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 377
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 81 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث81
اردو حاشہ:
اس حدیث میں ایمان کے بنیادی مسائل کا ذکر ہے، جن میں تقدیر پر ایمان بھی شامل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 81
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 104
´ایمان کی کچھ علامات`
«. . . وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: \" لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ وَيُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ \". رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه . . .»
”. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ ایماندار نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ ان چار باتوں پر ایمان لے آئے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں مجھ کو اللہ نے حق کے ساتھ بھیجا ہے، موت اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کو، اور تقدیر پر ایمان لانا۔“ اس حدیث کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے یعنی ان چاروں پر ایمان لانے سے ایمان کامل کا درجہ حاصل کرے گا۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 104]
تخریج:
[سنن ترمذي 2145]،
[سنن ابن ماجه 81]
تحقیق الحدیث:
یہ روایت معلول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
● اسے ابن حبان [الاحسان: 178] حاکم [1؍33] اور ذہبی نے صحیح کہا ہے، لیکن اس کی سند معلول ہے۔
ربعی بن حراش رحمہ اللہ اگرچہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، لیکن انہوں نے یہ روایت «عن رجل عن علي» کی سند سے بیان کی ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي: 2/2148، مسند ابي داود الطيالسي: 106، مسند أحمد 133/1 ح 1112، مسند عبد بن حميد: 75، شرح السنة للبغوي 122/1 ح 66، كتاب القدر للفريابي: 192، 193، كتاب القدر للبيهقي: 194، 193]
● المزید فی متصل الاسانید کا مسئلہ ہے کہ اگر ایک روایت میں راوی کا اضافہ ہو اور دوسری میں وہ راوی موجود نہ ہو تو اسی اضافے کا اعتبار ہے الا یہ کہ اضافے کے بغیر والی روایت میں راوی کی اپنے استاد سے سماع کی تصریح ہو۔ دیکھئے: [مقدمة ابن الصلاح ص 290 نوع 37]
● روایت مذکورہ میں ربعی بن حراش نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی، لہٰذا زائد راوی ( «رجل من بني اسد») کے اضافے کا ہی اعتبار ہے، امام دارقطنی نے بھی اسی اضافے کو صواب (صحیح) قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [العلل للدارقطني ج3 ص196، 197 س: 357]
● اور یہ رجل مجہول ہے۔
● المزید فی متصل الاسانید کے بنیادی اصول حدیث کی رو سے امام ترمذی و حافظ مقدسی صاحب المختارۃ کا قول مرجوح و غیر صواب ہے۔
● اس حدیث کے معنوی شواہد ہیں، لیکن اس روایت میں «أني رسول الله» کے الفاظ کا کوئی شاہد نہیں ملا۔ «والله اعلم»
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 104