(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا طلحة بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله ، عن عمته عائشة بنت طلحة ، عن عائشة ام المؤمنين، قالت: دعي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جنازة غلام من الانصار، فقلت: يا رسول الله، طوبى لهذا عصفور من عصافير الجنة، لم يعمل السوء، ولم يدركه، قال:" او غير ذلك يا عائشة، إن الله خلق للجنة اهلا، خلقهم لها وهم في اصلاب آبائهم، وخلق للنار اهلا خلقهم لها، وهم في اصلاب آبائهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِنَازَةِ غُلَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ، لَمْ يَعْمَلِ السُّوءَ، وَلَمْ يُدْرِكْهُ، قَالَ:" أَوَ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا، خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا، وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک بچے کے جنازے میں بلائے گئے، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بچہ کے لیے مبارک باد ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برائی کی اور نہ ہی برائی کرنے کا وقت پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ بات یوں نہیں ہے، بلکہ اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے، اور جہنم کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا صحیح نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کر دیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث ایک دوسری حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مر جائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا، بعض نے کہا: یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔
It was narrated that 'Aishah the Mother of the Believers said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) was called to the funeral of a child from among the Ansar. I said: 'O Messenger of Allah, glad tidings for him! He is one of the little birds of Paradise, who never did evil or reached the age of doing evil (i.e, the age of accountability).' He said: 'It may not be so, O 'Aishah! For Allah created people for Paradise, He created them for it when they were still in their father's loins, And He has created people for Hell, He created them for it when they were still in their fathers' loins.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث82
اردو حاشہ: (1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے جس یقین کے ساتھ اس لڑکے کو جنتی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا اور فرمایا کہ اس کا علم محض اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ مسلمانوں کے سب بچے جنتی ہیں، چنانچہ متعدد احادیث بھی اس فیصلے کی موید ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث شاید تب فرمائی ہو جب اس کا آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے علم عنایت فرما دیا ہو۔
(2) اس روایت سے تقدیر کا ثبوت ملتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 82
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 84
´تقدیر کا غالب آنا` «. . . عَن عَائِشَة أم الْمُؤمنِينَ قَالَتْ: «دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِنَازَةِ صَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلِ السُّوءُ وَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ أَوَ غَيْرُ ذَلِكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وهم فِي أصلاب آبَائِهِم» . رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچے کی نماز جنازہ کے لیے بلایا گیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس بچے کے لیے خوشخبری اور خوشحالی ہو یہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ اس نے برا کام کیا ہے اور نہ برائی نے اسے پایا۔ یعنی برائی کی حد کو نہیں پہنچا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالانکہ حقیقت اس کے غیر ہے (یعنی کسی کو جنتی ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے لوگوں کو پیدا کر دیا ہے حالانکہ وہ اپنے باپوں کے پیٹھوں میں تھے اور اسی طرح جہنم کے لیے لوگوں کو پیدا کیا ہے حالانکہ وہ اپنے باپوں کے پیٹھوں میں تھے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 84]
تخریج: [صحيح مسلم 6768]
فقہ الحدیث: ➊ کسی آدمی کے بارے میں قطعی فیصلہ نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟ الا یہ کہ جو قرآن و حدیث کی رو سے واضح ہو۔ ➋ مسلمانوں کے نابالغ فوت شدہ بچوں کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ راجح یہی ہے کہ یہ بچے اپنے جنتی والدین کے ساتھ جنتی ہیں۔ رہے کفار کے بچے تو راجح قول میں ان کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور کفار کے مردہ بچوں کی نماز جنازہ نہیں ➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مومنوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے والدین کے ساتھ ہیں۔“ انہوں نے پوچھا: بغیر عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جانتا ہے جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: مشرکین کی اولاد؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ”وہ اپنے والدین کے ساتھ ہے۔“ انہوں نے پوچھا: بغیر عمل کے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ”اللہ جانتا ہے، جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔“[سنن ابي داود: 4712، وسنده صحيح]
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:267
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو معصوم بچے فوت ہوں گے، وہ جنت میں جائیں گے، نیز تقدیر برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ جہنم میں کون جائے گا اور جنت میں کون جائے گا۔ ہمیں جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخلے کا حق نہیں دیا گیا ہے کہ فلاں جنتی ہے فلاں جہنمی ہے اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 267
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6768
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچے کے جنازہ کے لیے بلایا گیا تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کے لیے مسرت و شادمانی ہے، جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے کوئی براکام نہیں کیا اور نہ اس کا وقت پایا، آپ نے فرمایا:"یا اور کچھ ہے۔اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! بے شک اللہ نے جنت کے اہل پیدا کیے ہیں انہیں اس کے لیے پیدا کیا ہے، جبکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6768]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، اللہ کو انسانی اعمال کا اس کے وجود میں آنے سے پہلے سے علم ہے اور ہمیں انسان کے اعمال کا علم نہیں ہے، اس لیے کسی کے جنتی یا دوزخی ہونے کا فیصلہ کرنا ہماری دسترس سے باہر ہے، یہ اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے، اس لیے اپنے طور پر کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔