كِتَاب الْجُمُعَةِ جمعہ کے احکام و مسائل The Book of Prayer - Friday 13. باب تَخْفِيفِ الصَّلاَةِ وَالْخُطْبَةِ: باب: نماز اور خطبہ مختصر پڑھانے کا بیان۔ Chapter: Keeping the prayer and khutbah short ابوا حوص نے سما ک بن حرب سے اور انھوں نے حضرت جا بربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا آپ کی نماز (طوالت میں) متوسط ہو تی تھی اور آپ کا خطبہ بھی متوسط ہو تا تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز درمیانی تھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ درمیانہ تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں محمد بن بشر نے حدیث بیان کی، ہمیں زکریا نے حدیث بیان کی کہا: مجھ سے سماک بن حرب نے حضرت جا بر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نماز یں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتا تھا تو آپ کی نماز در میانی ہو تی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانہ ہو تا تھا ابو بکر بن ابی شیبہ کی روا یت میں (زکریا نے کہا: (حدثنی سماک بن حرب) " مجھے سماک بن حرب نے حدیث بیان کی"کے بجائے) زکریا نےمجھے سماک سے روایت کی" کے الفا ظ ہیں۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ میں نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتا تھا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی تھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ بھی درمیانہ تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب احمرت عيناه وعلا صوته واشتد غضبه، حتى كانه منذر جيش، يقول: " صبحكم ومساكم "، ويقول: " بعثت انا والساعة كهاتين، ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى "، ويقول: " اما بعد فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدى هدى محمد، وشر الامور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة "، ثم يقول: " انا اولى بكل مؤمن من نفسه، من ترك مالا فلاهله، ومن ترك دينا او ضياعا فإلي وعلي ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ وَعَلَا صَوْتُهُ وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ، يَقُولُ: " صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ "، وَيَقُولُ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى "، وَيَقُولُ: " أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "، ثُمَّ يَقُولُ: " أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ ". عبد الوہاب بن عبد المجید (ثقفی) نے جعفر (صادق) بن محمد (باقر) سے روایت کی انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جا تیں، آواز بلند ہو جا تی اور جلال کی کیفیت طاری ہو جا تی تھی حتیٰ کہ ایسا لگتا جیسے آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں فر ما رہے ہیں کہ وہ (لشکر) صبح یا شام (تک) تمھیں آلے گا اور فرماتے "میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں "اور آپ اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھا تے اور فرماتے۔" (حمدو صلاۃ) کے بعد بلا شبہ بہترین حدیث (کلام) اللہ کی کتاب ہے اور زندگی کا بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ زندگی ہے اور (دین میں) بد ترین کا وہ ہیں جو خود نکا لے گئے ہوں اور ہر نیا نکا لا ہوا کا م گمراہی ہے پھر فرماتے: "میں ہر مو من کے ساتھ خود اس کی نسبت زیادہ محبت اور شفقت رکھنے والا ہوں جو کوئی (مومن اپنے بعد) مال چھوڑ گیا تو وہ اس کے اہل و عیال (وارثوں) کا ہے اور جو مومن قرض یا بے سہارا اہل و عیال چھوڑ گیا تو (اس قرض کو) میری طرف لو ٹا یا جا ئے (اور اس کے کنبے کی پرورش) میرے ذمے ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جا تیں تھیں، آواز بلند ہو جاتی تھی اور سخت غصہ اور جلال کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی حتیٰ کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم لشکر سے ڈرا رہے ہیں فرماتے تھےکہ ”صبح حملہ آور ہو گا یا شام کو“ اور فرماتے تھے کہ ”میری بعثت اور قیامت دو انگلیوں کی طرح ہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا لیتے تھے اور فرماتے: ”حمدو صلاۃ کے بعد، بلا شبہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ یا بہترین ارشاد و رہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ (طرز عمل) یا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی ہے اوربد ترین کام، نئے کام ہیں اور او ہر نیا کام گمراہی ہے“ پھر فرماتے: ”میں ہرشخص کی جان پر (اس کے معاملات کے سلسلہ میں) اس سے زیادہ حقدار ہوں۔ جس شخص نے مال چھوڑا وہ تو اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا اہل عیال چھوڑا ان کر پرورش میری طرف ہے اور میں ان کا ذمہ دار ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سلیمان بن بلال نے کہا: مجھ سے جعفر بن محمد نے اپنے نے اپنے والد سے روایت کی انھوں نے کہا: میں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے جمعے کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ اس طرح ہوتا تھاکہ آپ اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے پھر اس کے بعد آپ (اپنی بات ارشاد فرماتے اور آپ کی اواز بہت بلند ہو تی۔۔۔پھر اس (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یہ تھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتے،پھر اس کے بعد بلند آواز سے فرماتے اور مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن جعفر ، عن ابيه ، عن جابر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس يحمد الله ويثني عليه بما هو اهله، ثم يقول: " من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وخير الحديث كتاب الله "، ثم ساق الحديث بمثل حديث الثقفي.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: " مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَخَيْرُ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ "، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ الثَّقَفِيِّ. سفیان نے جعفر سے انھوں نے اپنے والد (محمد باقر) سے اور انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو گوں کو (اس طرح) خطبہ دیتے پہلے اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد و ثنا ء بیان کرتے پھر فرماتے۔"جسے اللہ سیدھی راہ پر چلا ئے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ سیدھی راہ سے ہٹا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور بہترین بات (حدیث) اللہ کی کتاب ہے۔۔۔"آگے (عبد الوہاب بن عبد المجید) ثقفی کی حدیث (2005) کے ما نند ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دیتے،اور اس کی شان کے مطابق اس کی حمد وثنا کرتے، پھرفرماتے: ”جسے اللہ راہِ راست پر چلائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور بہترین بات اللہ کی کتاب ہے۔“ آگے ثقفی کی مذکورہ بالا حدیث کی طرح روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن المثنى ، كلاهما، عن عبد الاعلى ، قال ابن المثنى: حدثني عبد الاعلى وهو ابو همام ، حدثنا داود ، عن عمرو بن سعيد ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، ان ضمادا قدم مكة وكان من ازد شنوءة، وكان يرقي من هذه الريح، فسمع سفهاء من اهل مكة يقولون: إن محمدا مجنون، فقال: لو اني رايت هذا الرجل لعل الله يشفيه على يدي، قال: فلقيه، فقال: يا محمد إني ارقي من هذه الريح، وإن الله يشفي على يدي من شاء، فهل لك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الحمد لله نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، واشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، اما بعد "، قال: فقال: اعد علي كلماتك هؤلاء، فاعادهن عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، قال: فقال: لقد سمعت قول الكهنة، وقول السحرة، وقول الشعراء، فما سمعت مثل كلماتك هؤلاء، ولقد بلغن ناعوس البحر، قال: فقال: هات يدك ابايعك على الإسلام، قال: فبايعه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وعلى قومك "، قال: وعلى قومي، قال: فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فمروا بقومه، فقال صاحب السرية للجيش: هل اصبتم من هؤلاء شيئا؟ فقال رجل من القوم: اصبت منهم مطهرة، فقال ردوها فإن هؤلاء قوم ضماد.وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، كلاهما، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى وَهُوَ أَبُو هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ ضِمَادًا قَدِمَ مَكَّةَ وَكَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ يَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ، فَسَمِعَ سُفَهَاءَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يَقُولُونَ: إِنَّ مُحَمَّدًا مَجْنُونٌ، فَقَالَ: لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللَّهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ، قَالَ: فَلَقِيَهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ، وَإِنَّ اللَّهَ يَشْفِي عَلَى يَدِي مَنْ شَاءَ، فَهَلْ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ "، قَالَ: فَقَالَ: أَعِدْ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ، فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ، وَقَوْلَ السَّحَرَةِ، وَقَوْلَ الشُّعَرَاءِ، فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ، وَلَقَدْ بَلَغْنَ نَاعُوسَ الْبَحْرِ، قَالَ: فَقَالَ: هَاتِ يَدَكَ أُبَايِعْكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَبَايَعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَعَلَى قَوْمِكَ "، قَالَ: وَعَلَى قَوْمِي، قَالَ: فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَمَرُّوا بِقَوْمِهِ، فَقَالَ صَاحِبُ السَّرِيَّةِ لِلْجَيْشِ: هَلْ أَصَبْتُمْ مِنْ هَؤُلَاءِ شَيْئًا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَصَبْتُ مِنْهُمْ مِطْهَرَةً، فَقَالَ رُدُّوهَا فَإِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ ضِمَادٍ. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ضمادمکہ آیا، وہ (قبیلہ) از دشنوء سے تھا اور آسیب کا دم کیا کرتا تھا (جسے لوگ ریح کہتے تھے، یعنی ایسی ہوا جو نظرنہیں آتی، اثر کرتی ہے) اس نے مکہ کے بے وقوفوں کو یہ کہتے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جنون ہوگیا ہے (نعوذ باللہ) اس نے کہا: اگر میں اس آدمی کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھوں شفا بخش دے۔کہا: وہ آپ سے ملا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس نظر نہ آنے والی بیماری (ریح) کو زائل کرنے کے لئے دم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھوں شفا بخشتا ہے تو آپ کیا چاہتے ہیں (کہ میں دم کروں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں) کہا: "ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ہادی لہ واشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ اما بعد"یقیناً تمام حمد اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں، جس کو اللہ سیدھی راہ پرچلائے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ چھوڑ دے، اسے کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی سچا معبود نہیں، وہی اکیلا (معبود) ہے، ا س کا کوئی شریک نہیں اور بلاشبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے، اس کے بعد!"کہا: وہ بول اٹھا: اپنے یہ کلمات مجھے دوبارہ سنائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ کلمات اس کے سامنے دہرائے۔اس پر اس نے کہا: میں نے کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں (سب) کے قول سنے ہیں، میں نے آپ کے ان کلمات جیسا کوئی کلمہ (کبھی) نہیں سنا، یہ تو بحر (بلاغت) کہ تہ تک پہنچ گئے ہیں اور کہنے لگا: ہاتھ بڑھایئے!میں آپ کے ساتھ اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔کہا: تو اس نے آپ کی بیعت کرلی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور تیری (طرف سے تیری) قوم (کے اسلام) پر بھی (تیری بیعت لیتاہوں) "اس نے کہا: اپنی قوم (کے اسلام) پر بھی (بیعت کرتاہوں) اس کے بعد آپ نے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) بھیجا، وہ ان کی قوم کے پاس سے گزرے تو امیر لشکر نے لشکر سے پوچھا: کیا تم نے ان لوگوں سے کوئی چیز لی ہے؟تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں نے ان سے ایک لوٹا لیا ہے اس نے کہا: اسے واپس کردو کیونکہ یہ (کوئی اور نہیں بلکہ) ضماد رضی اللہ عنہ کی قوم ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ازد شنوء قبیلہ کا فرد ضماد مکہ آیا وہ آسیب کا دم کرتا تھا اس نے مکہ کے بے وقوف اور کم عقل لوگوں سے سنا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) دیوانہ ہے تو اسنے دل میں کہا، اگر میں اس آدمی کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھوں شفا بخش دے، اس کے لیے وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں جنات کے اثر زائل کرنے کے لیے دم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھوں شفا بخشتا ہے، تو کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی خواہش رکھتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ حمد و شکر کا حقدار اللہ ہے، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مدد کے طالب ہیں جس کو اللہ راہ راست پر چلا دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ چھوڑ دے اسے کوئی راہ راست پر نہیں چلا سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے حمد و شہادت کے بعد“ اس(ضماد) نے کہا، مجھے یہ کلمات دوبارہ سنائیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات اسے تین دفعہ سنائے یا ان کلمات کا اس کے سامنے تین دفعہ اعادہ کیا، تو ا س نے کہا میں نے کاہنوں کا قول، جادوگروں کا قول اور شاعروں کا قول (سب کو) سنا ہے۔ میں نے تیرے ان کلمات جیسا قول نہیں سنا۔ یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں اور کہنے لگا ہاتھ بڑھائیے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام کی خاطر بیعت کرتا ہوں۔ تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرلی۔ رسل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری قوم کی طرف بھی بیعت لیتا ہوں “ اس نے کہا: اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) بھیجا، وہ ضماد کی قوم کے پاس سے گزرے، تو امیر لشکر نے کہا۔ کیا تم نے ان لوگوں سے کوئی چیز لی ہے؟ ایک لشکری نے کہا، میں نے ان سے ایک لوٹا لیا ہے۔ تو اس نے کہا اسے واپس کر دو کیونکہ یہ لوگ ضماد کی قوم ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو وائل نے کہا: ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا۔انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (بات کی) جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا: ابویقظان! آپ نے انتہائی پر تاثیر اور انتہائی مختصر خطبہ دیاہے، کاش! آپ سانس کچھ لمبی کرلیتے (زیادہ دیر بات کرلیتے) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "انسان کی نماز کا طویل ہونا اوراس کے خطبے کاچھوٹا ہونا اس کی سمجھداری کی علامت ہے، اس لئے نماز لمبی کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی بیان جادو (کی طرح) ہوتا ہے۔" ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ انتہائی مختصر اورانتہائی بلیغ (مؤثر) تو جب وہ منبر سے اترے ہم نے کہا: اے ابویقظان! آپ نے انتہائی بلیغ (پر تأثیر) اور انتہائی مختصر خطبہ دیا ہے، اے کاش! آپ کچھ لمبا خطبہ دیتے، انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”انسان کی نماز کی طوالت اور اس کے خطبہ کا چھوٹا ہونا اس کی فقاہت (سوجھ بوجھ) کی علامت ہے۔ اس لئے نماز کو طویل کرو اور خطبہ چھوٹا دو، اور بلاشبہ بعض بیان جادو کی تأثیر رکھتے ہیں“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے، انھوں نے تمیم بن طرفہ سے اور انھوں نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خطبہ دیا اور (اس میں) کہا: جو اللہ اور اس کے رسو ل کی اطاعت کرتاہے اس نے رشدوہدایت پالی اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرتاہے وہ بھٹک گیا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو بُرا خطیب ہے، (فقرے کے پہلے حصے کی طرح) یوں کہو، جس نے اللہ کی اور اس کے ر سول کی نافرمانی کی (وہ گمراہ ہوا۔) " ابن نمیر کی ر وایت میں غوی (واہ کے نیچے زیر) ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں خطاب کیا اور اس میں کہا: جو اللہ اور اس کے رسو ل کی اطاعت کرتا ہے اس نے رشدوہدایت پا لی اور جو ان کی نافرمانی کرے گا یا جس نے ان دونوں کا نافرمانی کی وہ بھٹک گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بہت برا خطیب ہے، یوں کہو، جس نے اللہ کی اور اس کے ر سول کی نافرمانی کی (وہ گمراہ ہوا۔)“ ابن نمیر کی روایت میں ”غَوِيَ“ کی واؤ پر زیر ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
صفوان کے والد حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر پڑھ رہے تھے: وَنَادَوْا یَا مَالِکُ"اور وہ پکاریں گے: اے مالک!" (الزخرف 77: 43) صفوان بن یعلیٰ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومنبر پر ﴿وَنَادَوْا يَا مَالِكُ﴾ پڑھتے ہوئے سنا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی، انھوں نے عمرہ بنت عبدالرحمان (بن سعد بن زرارہ انصاریہ) سے، انھوں نے کہا: (ماں کی طرف سے) اپنی بہن کی طرف سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے سورہ ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ جمعے کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کریاد کی۔آپ اسے ہر جمعے منبر پر پڑھ کر سنایا (اور سمجھایا) کرتے تھے۔ عمرہ بنت عبدالرحمان کی بہن بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۃ ﴿ق والقرآن المجید﴾ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر یاد کی ہے۔ آپ اسے ہر جمعہ منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن ایوب نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے عمرہ سے اور انھوں نے اپنی بہن سے جو عمر میں ان سے بڑی تھیں، روایت کی۔۔۔سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند۔ مصنف نے یہی روایت دوسری سند سے بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ عمرہ کی بہن اس سے بڑی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن محمد بن معن نے حارثہ بن نعمان کی بیٹی (ام ہشام) سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے سورہ ق (کسی اور سے نہیں براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر یاد کی، آپ ہر جمعے میں اسےپڑھ کر خطاب فرماتے تھے۔انھوں نے کہا: ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تندور ایک ہی تھا۔ حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کی روایت ہے کہ میں نے سورہ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر یاد کی ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ میں اس کے ذریعہ خطاب فرماتے تھے اور ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمان بن سعد نے زرارہ نے ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تندور دو یا ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ایک ہی رہا اور میں نے سورہ ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ (کسی اور سے نہیں بلکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر یاد کی، آپ ہر جمعے کے دن جب لوگوں کو خطبہ دیتے تو اسے منبر پر پڑھتے تھے۔ ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور دو یا ڈیڑھ سال ایک ہی رہا ہے اور میں نے سورہ ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہی سے سن کر یاد کی ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ میں جب لوگوں کوخطبہ دیتے تو اسے منبر پر پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن ادریس نے حصین سے اور انھوں نے حضرت عمارہ بن رویبہ (ثقفی) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: انھوں نے بشر بن مروان (بن حکم، عامل مدینہ) کو منبر پر (تقریر کے دوران) دونوں ہاتھ بلند کرتے دیکھا تو کہا: اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو بگاڑے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس سےزیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ بلند کرتے دیکھا تو کہا اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو بگاڑے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو عوانہ نے حصین بن عبدالرحمان سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے جمعے کے دن بشر بن مروان کو دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو اس پر عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔۔اس کے بعد اس (مذکورہ بالا روایت) کے ہم معنی روایت بیان کی۔ حصین بن عبدالرحمان کی روایت ہے کہ میں نے جمعہ کے دن بشر بن مروان کو دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا۔ تو عمارہ بن رویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا۔ مذکورہ بالاروایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|