وحدثني محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب احمرت عيناه وعلا صوته واشتد غضبه، حتى كانه منذر جيش، يقول: " صبحكم ومساكم "، ويقول: " بعثت انا والساعة كهاتين، ويقرن بين إصبعيه السبابة والوسطى "، ويقول: " اما بعد فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدى هدى محمد، وشر الامور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة "، ثم يقول: " انا اولى بكل مؤمن من نفسه، من ترك مالا فلاهله، ومن ترك دينا او ضياعا فإلي وعلي ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ وَعَلَا صَوْتُهُ وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ، يَقُولُ: " صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ "، وَيَقُولُ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى "، وَيَقُولُ: " أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "، ثُمَّ يَقُولُ: " أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ ".
عبد الوہاب بن عبد المجید (ثقفی) نے جعفر (صادق) بن محمد (باقر) سے روایت کی انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جا تیں، آواز بلند ہو جا تی اور جلال کی کیفیت طاری ہو جا تی تھی حتیٰ کہ ایسا لگتا جیسے آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں فر ما رہے ہیں کہ وہ (لشکر) صبح یا شام (تک) تمھیں آلے گا اور فرماتے "میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں "اور آپ اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھا تے اور فرماتے۔" (حمدو صلاۃ) کے بعد بلا شبہ بہترین حدیث (کلام) اللہ کی کتاب ہے اور زندگی کا بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ زندگی ہے اور (دین میں) بد ترین کا وہ ہیں جو خود نکا لے گئے ہوں اور ہر نیا نکا لا ہوا کا م گمراہی ہے پھر فرماتے: "میں ہر مو من کے ساتھ خود اس کی نسبت زیادہ محبت اور شفقت رکھنے والا ہوں جو کوئی (مومن اپنے بعد) مال چھوڑ گیا تو وہ اس کے اہل و عیال (وارثوں) کا ہے اور جو مومن قرض یا بے سہارا اہل و عیال چھوڑ گیا تو (اس قرض کو) میری طرف لو ٹا یا جا ئے (اور اس کے کنبے کی پرورش) میرے ذمے ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جا تیں تھیں، آواز بلند ہو جاتی تھی اور سخت غصہ اور جلال کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی حتیٰ کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم لشکر سے ڈرا رہے ہیں فرماتے تھےکہ ”صبح حملہ آور ہو گا یا شام کو“ اور فرماتے تھے کہ ”میری بعثت اور قیامت دو انگلیوں کی طرح ہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا لیتے تھے اور فرماتے: ”حمدو صلاۃ کے بعد، بلا شبہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ یا بہترین ارشاد و رہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ (طرز عمل) یا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی ہے اوربد ترین کام، نئے کام ہیں اور او ہر نیا کام گمراہی ہے“ پھر فرماتے: ”میں ہرشخص کی جان پر (اس کے معاملات کے سلسلہ میں) اس سے زیادہ حقدار ہوں۔ جس شخص نے مال چھوڑا وہ تو اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا اہل عیال چھوڑا ان کر پرورش میری طرف ہے اور میں ان کا ذمہ دار ہوں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2005
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ آپﷺ کاخطبہ انتہائی پر جوش اور پر جلال خطبہ ہوتا تھا آنکھوں میں جلال اترآتا تھا۔ آواز بلند ہو جاتی تھی تاکہ آپﷺ کی آواز سب تک پہنچ جائے اور آپﷺ کے غصے میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ تاکہ لوگ پورے اہتمام اور چوکسی کے ساتھ بات سنیں اور ان کو اہمیت دیں اور ظاہر ہے یہ حال ہر خطبے میں نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ خطیب کی کیفیت اور اس کی حرکات وسکنات اور اس کا اسلوب بیان خطبہ کے مضمون کے مطابق ہوتا ہے یعنی حال اور قال میں مطابقت ویکسانیت ہے۔ یہ اس صورت میں ہوتا تھا جبکہ آپﷺ قیامت کی ہولناکیوں اوراس کی تباہی وبربادی سے ڈراتےتھے۔ یا انسانوں کو ان کے افعال بد اور گناہوں کی پاداش سےڈراتے تھے۔ دشمن کی تباہ کاریاں سے ڈرا کر اس سے اپنے بچاؤ اور حفاظت پر آمادہ کرتے تھے۔ اور انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر اس طرف اشارہ فرماتے تھے۔ جس طرح یہ دونوں قریب قریب ہیں۔ اور ان کے درمیان کوئی انگلی نہیں ہے۔ اسی طرح میری بعثت کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔ اب میرے درمیان اور قیامت کے درمیان کوئی اور رسول یا نبی آنے والا نہیں ہے۔ میری ہی بعثت کے دور میں قیامت آنی ہے۔ اس لیے اس کی تیاری اور اہتمام کرلو۔ 2۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے بلند وبالا ہے اسی طرح اس کا کلام بھی سب سے اشرف اور اعلیٰ ہے اور دین ودنیا کی تمام ضروری ہدایات وتعلیمات پر مشتمل ہے۔ 3۔ اگر لفظ ہدی ھاء کے زبر اور دال کے سکون کے ساتھ ہو تو معنی ہو گا طریقہ، رویہ طرزعمل سیرت اور اگرھا کے پیش اور دال کے زبر کے ساتھ ہو تو معنی ہو گا دلالت وارشاد یعنی رہنمائی ہوگا۔ مقصد یہ ہے کہ انسان کے لیے آپﷺ کا رویہ اور طرزعمل ہی اسوہ اور نمونہ ہے۔ اور آپﷺ کی رہنمائی میں چلنا ہی کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے۔ 4۔ (كُلُّ بِدعَةٍ ضَلَالَة) یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے۔ کہ ہر محدث دین یعنی دین میں نئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔ اس لیے بدعت کی اقسام بنانا غلط ہے۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل سے اس کی تردید کی ہے۔ اوربدعت کا تعلق صرف دینی امور اوراعتقادات وعبادات سے ہے جن میں تغیر وتبدیل کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے نئے پیش آمدہ مسائل جو کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں حل کیے جاتے ہو یا استنباط اور اجتہاد سے تعلق رکھتے ہیں وہ بدعت نہیں ہیں۔ کیونکہ آپﷺ نےفرمایا: (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه، فهو ردٌّ) جس نے دین میں نئی بات نکالی (ما ليس منه، ) جس کی دینی نصوص کی روسے گنجائش نہیں ہے۔ (فهو ردٌّ) وہ مردود ہے۔ لہٰذا وہ امر جن کی نصوص سے اجازت یا ضرورت ثابت ہوتی ہے وہ بدعت نہیں ہیں۔ 5۔ (أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ) میرا ہر مومن پر اس کے نفس سے زیادہ حق ہے۔ اس لیے اس کے تمام امورمیں میرا فیصلہ اورمیرا حکم نافذالعمل ہو گا۔ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں میری ہدایات وتعلیمات یا میرے احکام وفرامین کو نظر انداز کرکے اپنے طور پر طے نہیں کر سکتا۔ اگر وہ مومن ہے تو وہ میری ہی ہر معاملہ میں اطاعت وفرما نبرداری بجا لائے گا۔ 6۔ (مَنْ تَرَكَ مَاًلا فَلِأَ هلِهِ) مرنے والا اپنے پیچھے جو ترکہ چھوڑتا ہے وہ اس کے ورثہ کا حق ہے اس میں کوئی ان کا حصہ دار یا شریک نہیں ہے۔ 7۔ (مَنْ تَرَكَ دَيْنًا اَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ) جو مومن مقروض فوت ہو جاتا ہے اور اس کے ترکہ میں، قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو وہ میں ادا کروں گا یعنی مسلمانوں کا بیت المال۔ اس کا ذمہ دار ہے لہٰذا قرض خواہ میرے پاس آئے اور بیت المال سے اپنا قرض وصول کرلے۔ اب یہ ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہے۔ اوراگر وہ پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑتا ہے۔ جو اپنا انتظام خود نہیں کر سکتے تو ان کی پرورش اور خرچ میرے ذمہ ہے۔ یہ فریضہ میں سر انجام دوں گا۔ اور اب یہ ذمہ داری ایک اسلامی حکومت کی ہے کہ وہ یتیموں کی کفالت کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2005
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 141
´بدعت گمراہی ہے` «. . . وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ . . .» ”. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اما بعد»(یعنی خطبہ میں فرمایا کہ حمد وصلوۃ کے بعد تم لوگ اس بات کو جان لو) کہ سب باتوں سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب راستوں سے اچھا راستہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا راستہ ہے اور سب کاموں سے زیادہ برا کام وہ ہے جو دین میں نیا کام نکالا گیا ہو، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 141]
فقہ الحدیث ➊ تقریر سے پہلے (اور مسنون خطبے کے بعد) «اما بعد» کہنا سنت ہے۔ ➋ حدیث رسول کی طرح کتاب اللہ (قرآن) کو حدیث کہنا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: سورۃ الزمر آیت: 23 ➌ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہر قسم کی بدعت گمراہی، باطل اور مردود ہے۔ ➍ جو عمل سنت سے ثابت ہو اور عوام میں جاری نہ ہو، پھر اس ثابت شدہ عمل کو دوبارہ جاری کر دیا جائے تو لغوی اعتبار سے اسے بدعت کہا جا سکتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول «نعم البدعة هذه» یہ اچھی بدعت ہے۔ [صحيح بخاري: 2010] کا یہی مطلب ہے۔ لیکن جس عمل کا کتاب و سنت اور ادلۂ شرعیہ میں کوئی ثبوت ہی نہ ہو تو اسے بدعت حسنہ قرار دینا غلط ہے۔ شریعت میں بدعت حسنہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ (بعض) لوگ اسے اچھا سمجھتے ہوں۔“[السنة للمروزي: 82 وسنده صحيح] ➎ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «من وقر صاحب بدعة فقد أعان عليٰ هدم الإسلام» ”جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد دی۔“[الشريعة للآجري ص962 ح 2040 وسنده صحيح] ابوالفضل عباس بن یوسف الشکلی مقبول الروایہ راوی ہے۔ دیکھیے: [تاريخ الاسلام فى للذهبي 479/23] اور [الوافي بالوفيات 373/16] ➏ مشہور تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک شاگرد کو ایک بدعتی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”اس کے پاس ہرگز نہ بیٹھو۔“[سنن الدارمي: 398 و سنده صحيح] ➐ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ [سنن الدارمي: 399 وسنده حسن، وقال الترمذي 2152: حسن صحیح غريب] ➑ ایک بدعتی نے امام ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے جواب دیا: آدھی بات بھی نہیں، اور انہوں نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔ [سنن الدارمي: 404 وسنده صحيح، الشريعة الآجري ص963 ح2046 وسنده صحيح] ➒ مشہور ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ صرف اہل سنت کو حدیث پڑھاتے تھے، فرماتے ہیں: «نحدث أهل السنة» ”ہم (صرف) اہل سنت کو حدیثیں سناتے ہیں۔“[تاريخ ابي زرعة الدمشقي: 1208، وسنده صحيح] ➓ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں تہتر [73] فرقے ہو جائیں گے جن میں صرف ایک جنتی ہے اور باقی سارے فرقے جہنمی ہیں۔ اسے درج ذیل صحابہ کرام نے روایت کیا ہے: ① عوف بن مالک رضی اللہ عنہ [سنن ابن ماجه: 3992 وسنده حسن] ② معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ [سنن ابي داود: 4597 وسنده حسن] ③ ابوامامہ رضی اللہ عنہ [المعجم الكبير للطبراني 8؍321 ح8035 وسنده حسن، السنن الكبريٰ للبيهقي 8؍188، وسنده حسن] اس آخری روایت میں فرقہ ناجیہ السواد الاعظم کو قرار دیا گیا ہے اور حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں «الجماعة» کا لفظ ہے، ان سب سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی جماعت حقہ ہے اور یہی السواد الاعظم ہے۔ نيز ديكهئے: [كتاب الشريعة الآجري ص14، 15، دوسرا نسخه ص17] ↰ خیرالقرون گزر جانے کے بعد شرالقرون میں بعض مبتدعین کا اپنے آپ کو سواد اعظم قرار دینا اسی طرح غلط ہے جس طرح ایک صحیح العقیدہ مسلمان بہت سے گمراہوں کے اکثریتی علاقے میں رہ رہا ہو اور اکثریتی لوگ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوں۔ ↰ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وتفترق أمتي عليٰ ثلاث وسبعين فرقة» ”اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔“[سنن الترمذي: 2640 وقال: ”حديث حسن صحيح“ وسنده حسن وصححه ابن حبان: 1834، والحاكم 1؍128، عليٰ شرط مسلم ووافقه الذهبي!] ↰ یہ تینوں یا چاروں روایتیں اپنے مفہوم کے ساتھ صحیح لغیرہ ہیں بلکہ بعض علماء نے تہتر فرقوں والی حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المتواتر للكتاني ص57 ح18] ↰ فرقوں والی بعض روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (متوفی 360 ھ) فرماتے ہیں: «رحم الله عبدا حذر هٰذه الفرق وجانب البدع واتبع ولم يبتدع ولزم الأثر وطلب الطريق المستقيم واستعان بمولاه الكريم» ”اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے ان فرقوں سے ڈرایا اور بدعات سے دوری اختیار کی، اس نے اتباع کی اور بدعات کی پیروی نہیں کی، اس نے آثار کو لازم پکڑا اور صراط مستقیم طلب کی اور اپنے مولیٰ کریم (اللہ) سے مدد مانگی۔“[الشريعة ص18، دوسرا نسخه ص20 قبل ح30]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث45
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ، آواز بلند اور غصہ سخت ہو جاتا، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی (حملہ آور) لشکر سے ڈرانے والے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ لشکر تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے، شام کو حملہ کرنے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”میں اور قیامت دونوں اس طرح قریب بھیجے گئے ہیں“، اور (سمجھانے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت والی اور بیچ والی انگلی ملاتے پھر فرماتے: ”حمد و صلاۃ کے بعد! جان لو کہ سارے امور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 45]
اردو حاشہ: (1) خطبے کا اصل مقصد غلطیوں پر تنبیہ کرنا اور ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے، لہذا خطبہ میں حالات کے مطابق عوام کی غلطیوں کی نشاندہی اور صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرنا ضروری ہے۔
(2) موضوع کی مناسبت سے خطبے میں جذباتی رنگ اختیار کرنا بھی درست ہے۔
(3) صراط مستقیم کا خلاصہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔
(4) خطبے کے دوران میں اگلی سے اشارہ مسنون ہے اور کوئی بات سمجھانے کے لیے مناسب اشارات سے مدد لینا درست ہے۔
(5) قرب قیامت کی صراحت میں یہ اشارہ موجود ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ جس طرح درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہوتی، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت سے پہلے کسی کو نبی بنا کر مبعوث نہیں کیا جائے گا، البتہ حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان سے نزول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے منافی نہیں، کیونکہ انہیں نبوت پہلے مل چکی تھی اور اب وہ شریعت محمدی کے مطابق عمل کریں گے۔
(6) قیامت قریب ہونے میں امت کے افراد کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ دنیا میں منہمک ہو کر قیامت کو فراموش نہ کر دیں بلکہ زیادہ توجہ سے آخرت کے لیے تیاری کریں۔
(7) بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا درست نہیں بلکہ ہر بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(8) فوت ہونے والے کا ترکہ قرآن و حدیث میں بیان کیے ہوئے اصولوں کے مطابق وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے، حکام اس میں تبدیلی کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ ان کا فرض ہے کہ ہر وارث کے لیے اس کے مقررہ حصے کا حصول یقینی بنائیں۔
(9) لاوارث اور ضرروت مند افراد کی کفالت کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ قرض ہو لیکن وہ اتنا مال نہ چھوڑ گیا ہو جس سے قرض ادا ہو سکے تو اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ بیت المال سے اس کا قرض ادا کرے اور اس کے پسماندگان کے جائز اخراجات پورے کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 45