جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ نماز میں جائز گفتگو، دعا، ذکر اور رب عزوجل سے مانگنے اور اس سے مشابہ اور اس جیسے ابواب کا مجموعہ۔ 549. (316) بَابُ ذِكْرِ مَا خَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا بیان جس کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختص کیا ہے اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا ہے
وہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حیات بخش امور کے لیے بلائیں تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہنا واجب ہے اگرچہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں
تخریج الحدیث:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بلایا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے (اور نماز جاری رکھی) پھر (نماز مکمّل کرنے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول، «السَّلامُ عَلَیْکَ» ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وَعَلَيْك السَّلام» “ اے ابی، جب میں نے تمہیں بلایا تھا تو تمہیں حاضر ہونے سے کس چیز نے روکا؟ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں نماز پڑھ رہا تھا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اللہ کی کتاب میں یہ حُکم نہیں پایا“ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» ” اے ایمان والو، تم اﷲ اور اس کے رسول کا کہنا مانو جب وہ تمہیں اس (امر) کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔“ اُنہوں نے عرض کیا، کیوں نہیں (یہ حُکم ضرور موجود ہے) میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، سیدنا ابی کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ آئندہ ایسی کوتاہی نہیں ہوگی۔ یہ ابن وہب کی حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح
سیدنا ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں مسجد میں (نماز پڑھ رہا) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا مگر میں حاضر نہ ہوا (اور نماز جاری رکھی پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے پاس کیوں نہیں آئے تھے؟“ میں نے عرض کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا“ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» [ سورة الأنفال: 24 ] ”اے ایمان والو، تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجالاؤ جبکہ وہ تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں ـ“ پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے قرآن مجید کی افضل ترین سورت نہ سکھاؤں؟“ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرایا ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» یعنی (سورۃ فاتحہ) یہ بار بار پڑھی جانے والی سات آیات (سبع مثانی) ہیں یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت بیان کی، مگر اس میں (افضل ترین سورت کی بجائے)عظیم ترین سورت کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث:
|