جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ نماز میں جائز گفتگو، دعا، ذکر اور رب عزوجل سے مانگنے اور اس سے مشابہ اور اس جیسے ابواب کا مجموعہ۔ 546. (313) بَابُ نَسْخِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، وَحَظْرِهِ بَعْدَمَا كَانَ مُبَاحًا نمازمیں کلام کے منسوخ ہونے اور اس کے جائز ہونے کے بعد ممنوع ہونے کا بیان
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا کرتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے، چنانچہ جب ہم (ہجرت حبشہ کے بعد) نجاشی کے پاس سے واپس آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز کی حالت میں) سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا۔ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کیا جواب دیا کرتے تھے ـ (اب کیوں نہیں دیا؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں مشغولیت ہوتی ہے ـ“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے پہلو میں کھڑے شخص سے بات کر لیتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہو گئی «وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» [ سورة البقرة: 238 ] ”اور اللہ کے لئے عاجزی کرنے والے بن کر کھڑے ہو“، جناب ہثیم کی روایت میں یہ اضافہ ہے تو ہمیں خاموش رہنے کا حُکم دے دیا گیا اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
جناب اسماعیل بن ابی خالد نے بندار کی سابقہ حدیث کی طرح روایت کی ہے مگر انہوں نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کوئی شخص اپنے ساتھی سے نماز میں ضروری بات کر لیتا تھا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہو گئی «وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» [ سورة البقرة: 238 ] ”اور اللہ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔“ تو ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حُکم دے دیا گیا۔
تخریج الحدیث:
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے۔ گزشتہ حدیث کے مثل بیان کیا۔ اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب دیا (بعد میں حُکم تبدیل ہوگیا) اور فرمایا: ” بیشک نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔“ (اس لئے سلام کا جواب نماز کی حالت میں کلام کے ساتھ نہ دیا کرو) میں نے ابراہیم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے سلام کرتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں اپنے دل میں جواب دے دیتا ہوں۔
تخریج الحدیث:
|