وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لله ملائكة يطوفون في الطرق يلتمسون اهل الذكر فإذا وجدوا قوما يذكرون الله تنادوا: هلموا إلى حاجتكم قال: «فيحفونهم باجنحتهم إلى السماء الدنيا» قال: فيسالهم ربهم وهو اعلم بهم: ما يقول عبادي؟ قال: يقولون: يسبحونك ويكبرونك ويحمدونك ويمجدونك قال: فيقول: هل راوني؟ قال: فيقولون: لا والله ما راوك قال فيقول: كيف لو راوني؟ قال: فيقولون: لو راوك كانوا اشد لك عبادة واشد لك تمجيدا واكثر لك تسبيحا قال: فيقول: فما يسالون؟ قالوا: يسالونك الجنة قال: يقول: وهل راوها؟ قال: فيقولون: لا والله يا رب ما راوها قال: فيقول: فكيف لو راوها؟ قال: يقولون: لو انهم راوها كانوا اشد حرصا واشد لها طلبا واعظم فيها رغبة قال: فمم يتعوذون؟ قال: يقولون: من النار قال: يقول: فهل راوها؟ قال: يقولون: «لا والله يا رب ما راوها» قال: يقول: فكيف لو راوها؟ قال: «يقولون لو راوها كانوا اشد منها فرارا واشد لها مخافة» قال: فيقول: فاشهدكم اني قد غفرت لهم قال: يقول ملك من الملائكة: فيهم فلان ليس منهم إنما جاء لحاجة قال: هم الجلساء لا يشقى جليسهم. رواه ال بخاري وفي رواية مسلم قال: إن لله ملائكة سيارة فضلا يبتغون مجالس الذكر فإذا وجدوا مجلسا فيه ذكر قعدوا معهم وحف بعضهم بعضا باجنحتهم حتى يملاوا ما بينهم وبين السماء الدنيا فإذا تفرقوا عرجوا وصعدوا إلى السماء قال: فيسالهم الله وهو اعلم: من اين جئتم؟ فيقولون: جئنا من عند عبادك في الارض يسبحونك ويكبرونك ويهللونك ويمجدونك ويحمدونك ويسالونك قال: وماذا يسالوني؟ قالوا: يسالونك جنتك قال: وهل راوا جنتي؟ قالوا: لا اي رب قال: وكيف لو راوا جنتي؟ قالوا: ويستجيرونك قال: ومم يستجيروني؟ قالوا: من نارك قال: وهل راوا ناري؟ قالوا: لا. قال: فكيف لو راوا ناري؟ قالوا: يستغفرونك قال: فيقول: قد غفرت لهم فاعطيتهم ما سالوا واجرتهم مما استجاروا قال: يقولون: رب فيهم فلان عبد خطاء وإنما مر فجلس معهم قال: «فيقول وله غفرت هم القوم لا يشقى بهم جليسهم» وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ قَالَ: «فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا» قَالَ: فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: مَا يَقُولُ عِبَادِي؟ قَالَ: يَقُولُونَ: يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُحَمِّدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ قَالَ: فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَا وَاللَّهِ مَا رَأَوْكَ قَالَ فَيَقُولُ: كَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا قَالَ: فَيَقُولُ: فَمَا يَسْأَلُونَ؟ قَالُوا: يسألونكَ الجنَّةَ قَالَ: يَقُول: وَهل رأوها؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا قَالَ: فَيَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: يقولونَ: لَو أنَّهم رأوها كَانُوا أَشد حِرْصًا وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً قَالَ: فممَّ يتعوذون؟ قَالَ: يَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ قَالَ: يَقُولُ: فَهَلْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: يَقُولُونَ: «لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا» قَالَ: يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: «يَقُولُونَ لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً» قَالَ: فَيَقُولُ: فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ قَالَ: يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ: فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ قَالَ: هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ. رَوَاهُ ال بُخَارِيُّ وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّارَةً فُضْلًا يَبْتَغُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا معَهُم وحفَّ بعضُهم بَعْضًا بأجنحتِهم حَتَّى يملأوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ قَالَ: فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ وَهُوَ أَعْلَمُ: مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ؟ فَيَقُولُونَ: جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادِكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ قَالَ: وَمَاذَا يَسْأَلُونِي؟ قَالُوا: يَسْأَلُونَكَ جَنَّتَكَ قَالَ: وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي؟ قَالُوا: لَا أَيْ رَبِّ قَالَ: وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي؟ قَالُوا: وَيَسْتَجِيرُونَكَ قَالَ: وَمِمَّ يَسْتَجِيرُونِي؟ قَالُوا: مِنْ نَارِكَ قَالَ: وَهَلْ رَأَوْا نَارِي؟ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِي؟ قَالُوا: يَسْتَغْفِرُونَكَ قَالَ: فَيَقُولُ: قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَأَعْطَيْتُهُمْ مَا سَأَلُوا وَأَجَرْتُهُمْ مِمَّا اسْتَجَارُوا قَالَ: يَقُولُونَ: رَبِّ فِيهِمْ فُلَانٌ عَبْدٌ خَطَّاءٌ وَإِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ قَالَ: «فَيَقُولُ وَلَهُ غَفَرْتُ هم الْقَوْم لَا يشقى بهم جليسهم»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو اہل ذکر کو تلاش کرتے ہوئے راستوں میں چکر لگاتے رہتے ہیں، جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پا لیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں، اپنے مقصد (اہل ذکر) کی طرف آؤ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے پروں کے ذریعے انہیں گھیر لیتے ہیں اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ انہیں بہتر جانتا ہے، میرے بندے کیا کہتے ہیں؟“ فرمایا: ”وہ عرض کرتے ہیں: وہ تیری تسبیح و تکبیر اور تیری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ “ فرمایا: ”وہ فرماتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں، اللہ کی قسم! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ “ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیفیت کیسی ہو؟“ فرمایا: ”وہ عرض کرتے ہیں، اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو وہ تیری خوب عبادت کریں، خوب شان و عظمت بیان کریں اور تیری بہت زیادہ تسبیح بیان کریں۔ “ فرمایا، وہ پوچھتا ہے: ”وہ (مجھ سے) کیا مانگ رہے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں، وہ تجھ سے جنت مانگ رہے ہیں۔ “ فرمایا: ”وہ پوچھتا ہے، کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ تو وہ عرض کرتے ہیں: نہیں، اللہ کی قسم! اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ “ فرمایا: ”وہ پوچھتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟“ فرمایا: ”وہ عرض کرتے ہیں، اگر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس کی بہت زیادہ خواہش، چاہت اور رغبت رکھیں۔ “ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ طلب کرتے ہیں؟“ فرمایا: ”وہ عرض کرتے ہیں: جہنم سے۔ “ فرمایا: ”وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟“ فرمایا: ”وہ عرض کرتے ہیں: نہیں، اللہ کی قسم! اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ “ فرمایا: ”وہ پوچھتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟“ فرمایا: ”وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس سے بہت دور بھاگیں اور اس سے بہت زیادہ ڈریں گے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فرشتہ عرض کرتا ہے: ان میں فلاں شخص ایسا ہے جو کہ ان (یعنی اہل ذکر) میں سے نہیں، وہ تو کسی ضرورت کے تحت آیا تھا، فرمایا: وہ ایسے بیٹھنے والے ہیں کہ ان کا ہم نشین محروم نہیں رہ سکتا۔ “ اور مسلم کی روایت میں ہے: ”اللہ کے کچھ فاضل فرشتے ہیں جو چکر لگاتے رہتے ہیں اور وہ ذکر کی مجالس تلاش کرتے ہیں، جب وہ ذکر کی کوئی مجلس پا لیتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، اور اپنے پروں کے ذریعے انہیں گھیر لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ ان (ذاکرین) کے اور آسمان دنیا کے مابین خلا کو بھر دیتے ہیں، جب وہ (ذاکرین) مجلس سے اٹھ جاتے ہیں، تو وہ فرشتے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں، فرمایا: تو اللہ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ (ان کے احوال کو) جانتا ہے، تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں، ہم زمین سے تیرے ان بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح و تکبیر اور تہلیل و تحمید بیان کرتے ہیں اور تجھ سے مانگتے ہیں، فرمایا: وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں، وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں، فرمایا: کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں، اے رب! نہیں، فرمایا: اگر وہ میری جنت دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں، وہ تجھ سے پناہ طلب کرتے ہیں، فرمایا: وہ مجھ سے کس چیز سے پناہ طلب کر رہے تھے؟ وہ عرض کرتے ہیں، تیری جہنم سے، فرمایا: کیا انہوں نے میری جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں، نہیں، فرمایا: اگر وہ میری جہنم کو دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: وہ تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ “ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے انہیں بخش دیا، انہوں نے جو مانگا میں نے دے دیا اور انہوں نے جس چیز سے پناہ طلب کی، میں نے انہیں اس سے پناہ دے دی۔ “ فرمایا: ”وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں: رب جی! ان میں ایک ایسا گناہ گار شخص ہے کہ بس وہ گزر رہا تھا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ “ فرمایا: ”اللہ رب العزت کہتے ہیں: میں نے اسے بھی بخش دیا، وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشین محروم نہیں رہ سکتا۔ “ رواہ البخاری (۶۴۰۸) و مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6408) و مسلم (2689/25)»