متفرق متفرق विभिन्न اذان کے اذکار अज़ान के अज़्कार
اذان سننے والا مؤذن کے جواب میں وہی کلمات کہے جو وہ کہہ رہا ہے. ۱؎
لیکن «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» ”آؤ نماز کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف“ کے جواب میں کہے: «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ» ”اللہ کی توفیق و مدد کے بغیر کسی گناہ سے بچنے کی طاقت اور کوئی نیکی کرنے کی قوت نہیں۔“ ۲؎ پھر یہ کہے۔ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور بالیقین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوا۔“ ۳؎ ۱؎ [صحيح بخاري:611، صحيح مسلم:383] ۲؎ [صحيح بخاري:613، صحيح مسلم:385] ۳؎ [صحيح مسلم:386، صحيح مسلم:384]
اذان کے جواب سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔ [ صحيح مسلم:384]
”اے اللہ اس کامل دعوت اور قائم نماز کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما، اور انہیں مقام محمود پر پہنچا جس کا تو نےان سے وعدہ کیا ہے۔ یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔“ «إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ» یہ الفاظ سنن الکبری للبیہقی کے ہیں اور اس کی سند صحیح ہے۔ [صحيح بخاري:614]
اذان اور اقامت کے درمیان اپنے لئے اللہ سے دعا کرے کیونکہ اس وقت دعا رد نہیں کی جاتی۔ [ صحيح، سنن داؤد:521، سنن ترمذي:212 مسند احمد:/120/3، 225/5، ح 13357 صحيح ابن خزيمه:427]
|