من كتاب الاطعمة کھانا کھانے کے آداب 9. باب الأَكْلِ بِالْيَمِينِ: سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانے کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھائے اور پئے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2073]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2020/106]، [أبوداؤد 3776]، [ترمذي 1799]، [ابن ماجه 3266]، [أبويعلی 5568]، [ابن حبان 5226]، [الحميدي 648] وضاحت:
(تشریح حدیث 2068) اس حدیث میں بائیں ہاتھ سے کھانا شیطان کی صفت بتایا گیا ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، شیطان کے نقشِ قدم پر چلنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ جو لوگ میزوں پر بیٹھ کر غیروں کی تقلید میں بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں اور اسی کو تہذیب سمجھتے ہیں، وہ بھی شیطان ہی کے مقلد ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس سند سے بھی مذکور بالا مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2074]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ایاس بن ابی سلمہ نے کہا: میرے والد نے مجھ سے حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسر بن راعی العیر کو دیکھا کہ وہ بایاں ہاتھ سے کھا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دایاں ہاتھ سے کھاؤ“، اس نے کہا: مجھ سے نہیں ہو سکتا، فرمایا: ”اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے“ (یعنی داہنے ہاتھ سے اگر جھوٹے ہو تو کبھی نہ کھا سکو)، راوی نے کہا: پھر کبھی اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہ پہنچ سکا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2075]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2021]، [ابن حبان 6512، 6513]، [ابن ابي شيبه 4497] وضاحت:
(تشریح احادیث 2069 سے 2071) یہ الله تعالیٰ کی طرف سے فرمانِ رسالت کو نہ ماننے کی فوری اور بھیانک سزا تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ سنّت کی مخالفت کی بڑی سزا ہے جو الله تعالیٰ دنیا میں بھی نشانِ عبرت کے طور پر دے سکتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [النور: 63] » ترجمہ: یعنی ”جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیئے کہ فتنے میں نہ پڑ جائیں یا (آخرت میں) دردناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانا دایاں ہاتھ سے کھانا چاہیے۔ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام دایاں ہاتھ سے کرتے تھے، کھانا، پینا، پہننا حتیٰ کہ بال سنوارنے اور جوتا پہننے میں بھی سیدھی جانب سے شروع کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اسی لئے گاڑیاں اور ٹریفک سیدھی جانب ہوتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شخص سنّت کی مخالفت کرے اس کے لئے بد دعا کی جا سکتی ہے۔ مذکورہ بالا شخص بسر کہا جاتا ہے کہ منافق تھا اور غرور و گھمنڈ میں اس نے کہا کہ میں سیدھے ہاتھ سے نہیں کھا سکتا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تم سیدھے ہاتھ سے کھا بھی نہ سکو گے۔ “ یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں فوراً شرفِ قبولیت حاصل کر گئی اور بسر کا داہنا ہاتھ ہمیشہ کے لئے شل ہو کر نشانِ عبرت بن گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو متبع سنّت بنائے اور سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت و عدم پیروی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|