الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ
كتاب الوالدين
17. بَابُ دَعْوَةِ الْوَالِدَيْنِ
والدین کی (بد) دعا
حدیث نمبر: 32
Save to word اعراب
حدثنا معاذ بن فضالة، قال‏:‏ حدثنا هشام، عن يحيى هو ابن ابي كثير، عن ابي جعفر، انه سمع ابا هريرة يقول‏:‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”ثلاث دعوات مستجابات لهن، لا شك فيهن‏:‏ دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالدين على ولدهما‏.‏“حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَهُنَّ، لاَ شَكَّ فِيهِنَّ‏:‏ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دعائیں یقیناً مقبول ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ماجاء فى دعوة الوالدين: 1905 و أبوداؤد: 1586 و ابن ماجه: 3862، من حديث هشام الدستوائي به و ابن حبان: 2406»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 33
Save to word اعراب
حدثنا عياش بن الوليد، قال‏:‏ حدثنا عبد الاعلى، قال‏:‏ حدثنا محمد بن إسحاق، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن محمد بن شرحبيل، اخي بني عبد الدار، عن ابي هريرة قال‏:‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول‏:‏ ”ما تكلم مولود من الناس في مهد إلا عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم، وصاحب جريج“، قيل‏:‏ يا نبي الله، وما صاحب جريج‏؟‏ قال‏:‏ ”فإن جريجا كان رجلا راهبا في صومعة له، وكان راعي بقر ياوي إلى اسفل صومعته، وكانت امراة من اهل القرية تختلف إلى الراعي، فاتت امه يوما فقالت‏:‏ يا جريج، وهو يصلي، فقال في نفسه وهو يصلي‏:‏ امي وصلاتي‏؟‏ فراى ان يؤثر صلاته، ثم صرخت به الثانية، فقال في نفسه‏:‏ امي وصلاتي‏؟‏ فراى ان يؤثر صلاته، ثم صرخت به الثالثة، فقال‏:‏ امي وصلاتي‏؟‏ فراى ان يؤثر صلاته، فلما لم يجبها قالت‏:‏ لا اماتك الله يا جريج حتى تنظر في وجه المومسات، ثم انصرفت‏.‏ فاتي الملك بتلك المراة ولدت، فقال‏:‏ ممن‏؟‏ قالت‏:‏ من جريج، قال‏:‏ اصاحب الصومعة‏؟‏ قالت‏:‏ نعم، قال‏:‏ اهدموا صومعته، واتوني به، فضربوا صومعته بالفئوس حتى وقعت‏.‏ فجعلوا يده إلى عنقه بحبل، ثم انطلق به، فمر به على المومسات، فرآهن فتبسم، وهن ينظرن إليه في الناس، فقال الملك‏:‏ ما تزعم هذه‏؟‏ قال‏:‏ ما تزعم‏؟‏ قال‏:‏ تزعم ان ولدها منك، قال‏:‏ انت تزعمين‏؟‏ قالت‏:‏ نعم، قال‏:‏ اين هذا الصغير‏؟‏ قالوا‏:‏ هذا هو في حجرها، فاقبل عليه فقال‏:‏ من ابوك‏؟‏ قال‏:‏ راعي البقر‏.‏ قال الملك‏:‏ انجعل صومعتك من ذهب‏؟‏ قال‏:‏ لا، قال‏:‏ من فضة‏؟‏ قال‏:‏ لا، قال‏:‏ فما نجعلها‏؟‏ قال‏:‏ ردوها كما كانت، قال‏:‏ فما الذي تبسمت‏؟‏ قال‏:‏ امرا عرفته، ادركتني دعوة امي، ثم اخبرهم‏.‏“حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، أَخِي بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”مَا تَكَلَّمَ مَوْلُودٌ مِنَ النَّاسِ فِي مَهْدٍ إِلاَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ“، قِيلَ‏:‏ يَا نَبِيَّ اللهِ، وَمَا صَاحِبُ جُرَيْجٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”فَإِنَّ جُرَيْجًا كَانَ رَجُلاً رَاهِبًا فِي صَوْمَعَةٍ لَهُ، وَكَانَ رَاعِيَ بَقَرٍ يَأْوِي إِلَى أَسْفَلِ صَوْمَعَتِهِ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْقَرْيَةِ تَخْتَلِفُ إِلَى الرَّاعِي، فَأَتَتْ أُمُّهُ يَوْمًا فَقَالَتْ‏:‏ يَا جُرَيْجُ، وَهُوَ يُصَلِّي، فَقَالَ فِي نَفْسِهِ وَهُوَ يُصَلِّي‏:‏ أُمِّي وَصَلاَتِي‏؟‏ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، ثُمَّ صَرَخَتْ بِهِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ فِي نَفْسِهِ‏:‏ أُمِّي وَصَلاَتِي‏؟‏ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، ثُمَّ صَرَخَتْ بِهِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ‏:‏ أُمِّي وَصَلاَتِي‏؟‏ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، فَلَمَّا لَمْ يُجِبْهَا قَالَتْ‏:‏ لاَ أَمَاتَكَ اللَّهُ يَا جُرَيْجُ حَتَّى تَنْظُرَ فِي وَجْهِ الْمُومِسَاتِ، ثُمَّ انْصَرَفَتْ‏.‏ فَأُتِيَ الْمَلِكُ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ وَلَدَتْ، فَقَالَ‏:‏ مِمَّنْ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ مِنْ جُرَيْجٍ، قَالَ‏:‏ أَصَاحِبُ الصَّوْمَعَةِ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، قَالَ‏:‏ اهْدِمُوا صَوْمَعَتَهُ، وَأْتُونِي بِهِ، فَضَرَبُوا صَوْمَعَتَهُ بِالْفُئُوسِ حَتَّى وَقَعَتْ‏.‏ فَجَعَلُوا يَدَهُ إِلَى عُنُقِهِ بِحَبْلٍ، ثُمَّ انْطُلِقَ بِهِ، فَمَرَّ بِهِ عَلَى الْمُومِسَاتِ، فَرَآهُنَّ فَتَبَسَّمَ، وَهُنَّ يَنْظُرْنَ إِلَيْهِ فِي النَّاسِ، فَقَالَ الْمَلِكُ‏:‏ مَا تَزْعُمُ هَذِهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ مَا تَزْعُمُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ تَزْعُمُ أَنَّ وَلَدَهَا مِنْكَ، قَالَ‏:‏ أَنْتِ تَزْعُمِينَ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، قَالَ‏:‏ أَيْنَ هَذَا الصَّغِيرُ‏؟‏ قَالُوا‏:‏ هَذا هُوَ فِي حِجْرِهَا، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ‏:‏ مَنْ أَبُوكَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ رَاعِي الْبَقَرِ‏.‏ قَالَ الْمَلِكُ‏:‏ أَنَجْعَلُ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ مِنْ فِضَّةٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ فَمَا نَجْعَلُهَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ رُدُّوهَا كَمَا كَانَتْ، قَالَ‏:‏ فَمَا الَّذِي تَبَسَّمْتَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَمْرًا عَرَفْتُهُ، أَدْرَكَتْنِي دَعْوَةُ أُمِّي، ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور جریج والے (بچے) کے علاوہ کسی نے گہوارے میں گفتگو نہیں کی۔ کہا گیا: اللہ کے نبی! جریج والے بچے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جریج ایک راہب آدمی تھا، جو اپنی کٹیا میں عبادت کیا کرتا تھا، اور اس کی عبادت گاہ کی نچلی جانب ایک گایوں کا چرواہا آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اور قریب ہی کے ایک گاؤں کی عورت کا اس کے پاس آنا جانا تھا۔ ایک روز اس (جریج) کی والدہ آئی اور اس نے آواز دی: اے جریج! وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے نماز پڑھتے ہوئے دل میں سوچا: (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے، بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس نے دوسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری نماز اور میری ماں؟ بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس کی ماں نے تیسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری ماں اور میری نماز! اسے یہی مناسب لگا کہ نماز کو ترجیح دے۔ اور جب اس نے کوئی جواب نہ دیا تو اس کی ماں نے کہا: اے جریج! اللہ تجھ کو موت نہ دے یہاں تک کہ تو فاحشہ عورتوں کا منہ دیکھ لے۔ پھر وہ چلی گئی (چرواہے کے پاس آنے جانے والی) اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا: یہ بچہ کس کا ہے؟ اس نے کہا: جریج کا۔ بادشاہ نے کہا: کٹیا والا جریج؟ اس نے کہا: ہاں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی عبادت گاہ گرا دو، اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ لوگوں نے کلہاڑوں سے اس کی کٹیا گرا دی اور اس کی مشکیں کس کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اسے فاحشہ عورتوں کے پاس سے گزارا گیا تو وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا، اور وہ فاحشہ عورتیں بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھیں جب کہ وہاں بہت سے لوگ تھے۔ بادشاہ نے اس سے کہا: یہ عورت کیا کہتی ہے؟ جریج نے کہا: کیا کہتی ہے؟ بادشاہ نے کہا: اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بچہ آپ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے کہا: واقعی تیرا یہ دعویٰ ہے؟ اس عورت نے کہا: ہاں۔ جریج نے کہا: وہ نومولود کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: وہ دیکھو اس کی گود میں ہے۔ وہ اس بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے مخاطب کر کے کہا: تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: گایوں کا چرواہا۔ (یہ سن کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور) اس نے کہا: تیرا عبادت خانہ ہم سونے کا بنا دیتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: چاندی کا بنا دیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: کس طرح کا بنائیں؟ اس نے کہا: جس طرح پہلے تھا ایسا ہی بنا دو۔ بادشاہ نے کہا: تو (راستے میں) مسکرایا کیوں تھا؟ اس نے کہا: ایک بات تھی جسے میں جان گیا تھا (اور وہ یہ تھی کہ) مجھے میری ماں کی بددعا لگ گئی تھی اور پھر انہیں پورا واقعہ بتایا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، أحاديث الأنبياء، باب واذكر فى الكتاب مريم: 3436 و مسلم: 2550»

قال الشيخ الألباني: صحیح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.