الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ
كتاب الوالدين
17. بَابُ دَعْوَةِ الْوَالِدَيْنِ
والدین کی (بد) دعا
حدیث نمبر: 33
حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، أَخِي بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”مَا تَكَلَّمَ مَوْلُودٌ مِنَ النَّاسِ فِي مَهْدٍ إِلاَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ“، قِيلَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، وَمَا صَاحِبُ جُرَيْجٍ؟ قَالَ: ”فَإِنَّ جُرَيْجًا كَانَ رَجُلاً رَاهِبًا فِي صَوْمَعَةٍ لَهُ، وَكَانَ رَاعِيَ بَقَرٍ يَأْوِي إِلَى أَسْفَلِ صَوْمَعَتِهِ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْقَرْيَةِ تَخْتَلِفُ إِلَى الرَّاعِي، فَأَتَتْ أُمُّهُ يَوْمًا فَقَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، وَهُوَ يُصَلِّي، فَقَالَ فِي نَفْسِهِ وَهُوَ يُصَلِّي: أُمِّي وَصَلاَتِي؟ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، ثُمَّ صَرَخَتْ بِهِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ فِي نَفْسِهِ: أُمِّي وَصَلاَتِي؟ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، ثُمَّ صَرَخَتْ بِهِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: أُمِّي وَصَلاَتِي؟ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، فَلَمَّا لَمْ يُجِبْهَا قَالَتْ: لاَ أَمَاتَكَ اللَّهُ يَا جُرَيْجُ حَتَّى تَنْظُرَ فِي وَجْهِ الْمُومِسَاتِ، ثُمَّ انْصَرَفَتْ. فَأُتِيَ الْمَلِكُ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ وَلَدَتْ، فَقَالَ: مِمَّنْ؟ قَالَتْ: مِنْ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَصَاحِبُ الصَّوْمَعَةِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: اهْدِمُوا صَوْمَعَتَهُ، وَأْتُونِي بِهِ، فَضَرَبُوا صَوْمَعَتَهُ بِالْفُئُوسِ حَتَّى وَقَعَتْ. فَجَعَلُوا يَدَهُ إِلَى عُنُقِهِ بِحَبْلٍ، ثُمَّ انْطُلِقَ بِهِ، فَمَرَّ بِهِ عَلَى الْمُومِسَاتِ، فَرَآهُنَّ فَتَبَسَّمَ، وَهُنَّ يَنْظُرْنَ إِلَيْهِ فِي النَّاسِ، فَقَالَ الْمَلِكُ: مَا تَزْعُمُ هَذِهِ؟ قَالَ: مَا تَزْعُمُ؟ قَالَ: تَزْعُمُ أَنَّ وَلَدَهَا مِنْكَ، قَالَ: أَنْتِ تَزْعُمِينَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: أَيْنَ هَذَا الصَّغِيرُ؟ قَالُوا: هَذا هُوَ فِي حِجْرِهَا، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَنْ أَبُوكَ؟ قَالَ: رَاعِي الْبَقَرِ. قَالَ الْمَلِكُ: أَنَجْعَلُ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: مِنْ فِضَّةٍ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَمَا نَجْعَلُهَا؟ قَالَ: رُدُّوهَا كَمَا كَانَتْ، قَالَ: فَمَا الَّذِي تَبَسَّمْتَ؟ قَالَ: أَمْرًا عَرَفْتُهُ، أَدْرَكَتْنِي دَعْوَةُ أُمِّي، ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور جریج والے (بچے) کے علاوہ کسی نے گہوارے میں گفتگو نہیں کی۔“ کہا گیا: اللہ کے نبی! جریج والے بچے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جریج ایک راہب آدمی تھا، جو اپنی کٹیا میں عبادت کیا کرتا تھا، اور اس کی عبادت گاہ کی نچلی جانب ایک گایوں کا چرواہا آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اور قریب ہی کے ایک گاؤں کی عورت کا اس کے پاس آنا جانا تھا۔ ایک روز اس (جریج) کی والدہ آئی اور اس نے آواز دی: اے جریج! وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے نماز پڑھتے ہوئے دل میں سوچا: (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے، بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس نے دوسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری نماز اور میری ماں؟ بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس کی ماں نے تیسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری ماں اور میری نماز! اسے یہی مناسب لگا کہ نماز کو ترجیح دے۔ اور جب اس نے کوئی جواب نہ دیا تو اس کی ماں نے کہا: اے جریج! اللہ تجھ کو موت نہ دے یہاں تک کہ تو فاحشہ عورتوں کا منہ دیکھ لے۔ پھر وہ چلی گئی (چرواہے کے پاس آنے جانے والی) اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا: یہ بچہ کس کا ہے؟ اس نے کہا: جریج کا۔ بادشاہ نے کہا: کٹیا والا جریج؟ اس نے کہا: ہاں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی عبادت گاہ گرا دو، اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ لوگوں نے کلہاڑوں سے اس کی کٹیا گرا دی اور اس کی مشکیں کس کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اسے فاحشہ عورتوں کے پاس سے گزارا گیا تو وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا، اور وہ فاحشہ عورتیں بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھیں جب کہ وہاں بہت سے لوگ تھے۔ بادشاہ نے اس سے کہا: یہ عورت کیا کہتی ہے؟ جریج نے کہا: کیا کہتی ہے؟ بادشاہ نے کہا: اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بچہ آپ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے کہا: واقعی تیرا یہ دعویٰ ہے؟ اس عورت نے کہا: ہاں۔ جریج نے کہا: وہ نومولود کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: وہ دیکھو اس کی گود میں ہے۔ وہ اس بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے مخاطب کر کے کہا: تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: گایوں کا چرواہا۔ (یہ سن کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور) اس نے کہا: تیرا عبادت خانہ ہم سونے کا بنا دیتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: چاندی کا بنا دیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: کس طرح کا بنائیں؟ اس نے کہا: جس طرح پہلے تھا ایسا ہی بنا دو۔ بادشاہ نے کہا: تو (راستے میں) مسکرایا کیوں تھا؟ اس نے کہا: ایک بات تھی جسے میں جان گیا تھا (اور وہ یہ تھی کہ) مجھے میری ماں کی بددعا لگ گئی تھی اور پھر انہیں پورا واقعہ بتایا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، أحاديث الأنبياء، باب واذكر فى الكتاب مريم: 3436 و مسلم: 2550»
قال الشيخ الألباني: صحیح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 33 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 33
فوائد ومسائل:
(۱)جریج بنی اسرائیل کا ایک راہب تھا۔ رہب کے معنی خوف کے ہیں، بنی اسرائیل کے نیک لوگ دنیا سے الگ تھلک ہوکر، اس کی لذتوں کو ترک کرکے، جان بوجھ کر اپنے اوپر مشقتیں ڈال کر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو خصی کرلیتے اور گلے میں زنجیریں ڈال کر اپنے آپ کو طرح طرح کے عذاب دیتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہبانیت کو ناجائز قرار دیا اور مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
(۲) اسلام نے زہد کو جائز رکھا ہے کہ دنیا سے حسب ضرورت فائدہ اٹھایا جائے اور اس میں رغبت نہ رکھی جائے لیکن اپنے اوپر ایسی پابندیاں لگا لینا جو شریعت نے نہیں لگائیں، ناجائز ہے۔ عصر حاضر میں قبروں اور مزاروں پر بیٹھنے والے ملنگ جس حلیے اور لباس میں رہتے ہیں وہ ہندو جوگیوں سے لیا گیا ہے۔ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں کہ گندہ لباس زیب تن کیا جائے اور سالہا سال تک غسل نہ کیا جائے، بلکہ اس کے برعکس اسلام نے ہفتہ میں ایک بار جمعہ کا غسل فرض قرار دیا ہے۔ اس لیے خود ساختہ ولایت کا یہ تصور اسلام میں دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا۔
(۳) بچہ گہوارے میں گفتگو نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ کسی نومولود کو بھی قوت گویائی عطا کر دے بلکہ وہ چاہے تو بے جان چیزوں کو بھی بولنے کی سکت عطا کرسکتا ہے جیسا کہ کنکریوں نے بول کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دی۔ اس سے اولیاء اللہ کی کرامت کے برحق ہونے کا پتا چلتا ہے۔ کرامت بسا اوقات طلب کرنے پر ظاہر ہوتی ہے اور کبھی بغیر طلب کے بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ کسی آدمی کے ہاتھوں اگر خلاف معمول واقعہ پیش آجائے تو اسے اس کی کرامت کہا جاتا ہے بشرطیکہ وہ آدمی احکام شریعت کا پابند ہو بصورت دیگر وہ شیطان کا شعبدہ ہوگا۔ یاد رہے کسی آدمی کے ولی اللہ ہونے کی یہ پہچان ہرگز نہیں ہے کہ اس سے کوئی کرامت رونما ہو۔ ہر ولی اللہ کی کرامت ظاہر ہونا ضروری نہیں۔ ہر ایماندار، احکام شریعت کا پابند اور متقی اللہ کا ولی ہے۔ ولایت کا مزعومہ تصور جو ہندوستان میں رائج ہے قرآن و سنت سے اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
(۴) ”حدیث میں ہے کہ اس چرواہے کے پاس گاؤں کی عورت کا آنا جانا تھا“ اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں: ایک یہ کہ غیر محرم مرد و زن کا اختلاط اور بالخصوص خلوت کسی خطرے سے خالی نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری احادیث میں غیر محرم سے خلوت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ برے ہمسائے انسان کی رسوائی کا سبب بن سکتے ہیں جیسے کہ چرواہا راہب کی رسوائی کا باعث بنا۔ اس لیے اچھے پڑوس کا انتخاب ضروری ہے اسی طرح برے دوستوں کی صحبت بھی بدنام کر دیتی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع
((لا تصحب الأردٰی فتردٰی))
”کمینے لوگوں کے ساتھ نہ رہو ورنہ تم تباہ ہو جاؤ گے۔“
(۵) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی بدعا سے بچنا چاہیے اور انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ والدین بلائیں تو ان کی بات کا جواب دینا فرض ہے۔ کیا نماز میں والدین کی بات کا جواب ضروری ہے؟ جہاں تک فرض نماز کا تعلق ہے تو اسے توڑنا اور والدین کا جواب دینا ضروری نہیں، البتہ اسے مختصر کیا جاسکتا ہے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بچے کے رونے کی وجہ سے نماز مختصر کر دیا کرتے تھے کہ اس کی ماں کو اذیت نہ ہو۔ (صحیح البخاري، حدیث: ۷۰۷)
نفلی نماز کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نفل نماز ترک کرکے والدین کی بات کا جواب دینا ضروری ہے کیونکہ انہیں جاری رکھنا نفل ہے اور ماں کو جواب دینا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا فرض ہے۔
امام الحرمین جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر فرض نماز کا وقت موسع، یعنی زیادہ ہو تو پھر فرض نماز توڑ کر بھی جواب دینا ضروری ہے۔
(۶) اس حدیث میں والدین کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ اولاد کو ان کی نافرمانی پر ایسی بد دعا نہ دیں جس سے ان کی عاقبت برباد ہو جائے کیونکہ ام جریج نے یہ نہیں کہا کہ تو بدکاری کرے یا مر جائے اور اللہ تعالیٰ کی معصیت کرے بلکہ یہ کہا کہ تو لوگوں کے ہاں رسوا ہو۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اولاد کے لیے اللہ کی معصیت کرنے کی دعا ہرگز نہ کریں اور جو مائیں اپنی اولاد کو بد دعائیں دیتی ہیں انہیں بھی سوچ سمجھ کر الفاظ منہ سے نکالنے چاہئیں۔
(۷) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص دل سے تعلق ہو تو اہل صدق و وفا پر آنے والی آزمائشیں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں بلکہ ان کی رفعت وبلندی کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ جریج با عزت بری ہوگیا اور لوگوں کے ہاں اس کی قدر و منزلت پہلے سے زیادہ ہوگئی۔ اسی طرح شریعت اسلامیہ میں واقعہ افک ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا گیا تو یہ ان کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی لیکن اللہ نے اس عزت سے بری کیا کہ قرآن مجید کی ایک سورت ان کی براء ت میں نازل کر دی۔
(۸) اللہ تعالیٰ پر جس قدر یقین پختہ ہو اللہ تعالیٰ اسی قدر بندے کی دعا قبول کرتا ہے۔ اور یقین اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب انسان کا اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہو۔ جب آسانیوں میں انسان اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے تو پھر آزمائش کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ بندے کو رسوا نہیں کرتا۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ مصیبت آتی ہے تو اللہ یاد آجاتا ہے، اور وہ بھی قسمت والوں کو ورنہ اکثریت کی صورت حال تو یہ ہے کہ مشکل وقت میں بھی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیروں کو پکارتے ہیں، اور جب آسانی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھلا دیتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تَعَرَّفْ اِلَی اللّٰهِ فِی الرَّخَاءِ یَعْرِفْكَ فِی الشِّدَةِ))(صحیح الجامع، حدیث: ۶۲۰۲)
”آسانیوں میں اللہ سے جان پہچان رکھو مشکل پڑے گی تو وہ تمہیں پہچان لے گا۔“
جریج کا دل صاف اور یقین کامل تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے رسوا نہیں کرے گا اور اگر اس کا یقین کامل نہ ہوتا تو وہ بچے سے ہرگز بولنے کا مطالبہ نہ کرتا۔
(۹) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب دو اہم کام ایک ہی وقت میں کرنے کا تقاضا کیا جائے تو جو زیادہ اہم ہو وہ پہلے کرنا چاہیے۔ والدین کی بات کا جواب دینا نوافل سے زیادہ اہم ہے اس لیے جریج کو زیادہ اہم کام ترک کرنے پر آزمائش میں ڈالا گیا۔ اہل علم و فضل اور متقی لوگوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات قرآن و سنت کے مطابق ترتیب دیں اور انہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بسا اوقات راجح کی بجائے مرجوح پر عمل کرنے سے بھی آزمائش آجاتی ہے۔
ابتلاء و آزمائش کا دورانیہ نہایت تھوڑا ہوتا ہے اور یقین کامل ہو تو آزمائش جلد ٹل جاتی ہے لیکن بسا اوقات انسان کی تہذیب اور اس کو سنوارنے یا درجات کی بلندی کے لیے یہ دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے اس لیے انسان کو گھبرانا نہیں چاہیے۔
(۱۰) اہل اللہ کا شیوہ یہ ہے کہ ان کا ہر گناہ ان کی نظر میں ہوتا ہے اور جب ان پر آزمائش اور مصیبت آتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں کہ انہیں کہاں ٹھوکر لگی ہے اور اللہ کی معصیت سرزد ہوئی ہے۔ جریج نے بھی جب فاحشہ عورتوں کو دیکھا تو اسے فوراً اپنا گناہ یاد آگیا کہ اس نے والدہ کی بات کا جواب نہیں دیا اور انہوں نے بددعا دی تھی۔
(۱۱) صحیح کی بخاری کی بعض روایات میں ہے کہ اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کی اور پھر بچے کے پاس آکر پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو مشکل وقت میں نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اسی کی تعلیم دی ہے، فرمایا: ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ﴾ (البقرة: ۴۵)”اور صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرو۔“
(۱۲) زمانہ جاہلیت میں زنا سے پیدا ہونے والا بچہ زانی ہی کا تصور ہوتا تھا اور اسے مل جاتا تھا لیکن اسلام نے زنا سے پیدا ہونے والے بچے کو اس کی ماں کی طرف منسوب کیا اور مرد کو اس بچے کا وارث قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ))(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: ۶۸۱۸)
”بچہ اس کا ہوگا جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔“
یعنی اگر شادی شدہ ہے تو رجم کیا جائے گا اور اگر غیر شادی شد ہو تو اسے کوڑے مارے جائیں گے۔
(۱۳)اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نیک سیرت شخص کے بارے میں الزام تراشی کی جائے تو اسے فوراً قبول کرکے اس کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے بلکہ پہلے معاملے کی تحقیق کرکے پھر اس کے خلاف کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ فوری رائے قائم کرنا بعد میں ندامت کا باعث ہوسکتا ہے جیسا کہ جریج کے خلاف کاروائی کرنے والوں کو بعد میں ندامت ہوئی۔
(۱۴)اپنے حق کا مطالبہ کرنا تقویٰ کے ہرگز خلاف نہیں، البتہ دنیا داروں کی پیش کش قبول کرنے سے حتی الوسع گریز کرنا بہتر ہے جیسا کہ جریج نے انہیں اپنا جھونپڑا، جو انہوں نے گرا دیا تھا، دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا اور بادشاہ کی، سونے کا بناکر دینے کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 33