كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ كتاب الوالدين 2. بَابُ بِرِّ الأُمِّ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا (سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ میں نے کہا: (پھر) کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ سے، پھر اس کے بعد جو تیرا زیادہ قریبی رشتہ دار ہو، پھر جو اس کے بعد زیادہ قریبی ہو۔“
تخریج الحدیث: «حسن: الارواء: 2232، 829، الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ماجاء فى بر الوالدين، رقم: 1897»
قال الشيخ الألباني: حسن
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تو اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے علاوہ کسی اور نے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ مجھے اس پر غیرت آ گئی اور میں نے اسے قتل کر دیا۔ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ سے توبہ کر اور جتنا ہو سکتا ہے (اعمال صالحہ وغیرہ سے) اللہ کا قرب حاصل کر، (راوی حدیث حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے عرض کی: آپ نے اس سے اس کی ماں کے زندہ ہونے کا سوال کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: میرے علم میں والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 2799»
قال الشيخ الألباني: صحیح
|