حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا إسرائيل، قال: حدثنا سماك، عن مصعب بن سعد، عن ابيه سعد بن ابي وقاص قال: نزلت في اربع آيات من كتاب الله تعالى: كانت امي حلفت ان لا تاكل ولا تشرب حتى افارق محمدا صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل: ﴿وإن جاهداك على ان تشرك بي ما ليس لك به علم فلا تطعهما وصاحبهما في الدنيا معروفا﴾ [لقمان: 15]. والثانية: اني كنت اخذت سيفا اعجبني، فقلت: يا رسول الله، هب لي هذا، فنزلت: ﴿يسالونك عن الانفال﴾ [الانفال: 1]. والثالثة: اني مرضت فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني اريد ان اقسم مالي، افاوصي بالنصف؟ فقال: ”لا“، فقلت: الثلث؟ فسكت، فكان الثلث بعده جائزا. والرابعة: إني شربت الخمر مع قوم من الانصار، فضرب رجل منهم انفي بلحي جمل، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فانزل عز وجل تحريم الخمر.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: نَزَلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالَى: كَانَتْ أُمِّي حَلَفَتْ أَنْ لاَ تَأْكُلَ وَلاَ تَشْرَبَ حَتَّى أُفَارِقَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطُعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ [لقمان: 15]. وَالثَّانِيَةُ: أَنِّي كُنْتُ أَخَذْتُ سَيْفًا أَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَبْ لِي هَذَا، فَنَزَلَتْ: ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ﴾ [الأنفال: 1]. وَالثَّالِثَةُ: أَنِّي مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقْسِمَ مَالِي، أَفَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ فَقَالَ: ”لَا“، فَقُلْتُ: الثُّلُثُ؟ فَسَكَتَ، فَكَانَ الثُّلُثُ بَعْدَهُ جَائِزًا. وَالرَّابِعَةُ: إِنِّي شَرِبْتُ الْخَمْرَ مَعَ قَوْمٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَضَرَبَ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْفِي بِلَحْيِ جَمَلٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ عَزَّ وَجَلَّ تَحْرِيمَ الْخَمْرِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ: قرآن مجید کی چار آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں۔ میری والدہ (جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) نے یہ قسم اٹھائی کہ میں اس وقت تک کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک میں (سعد) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی: «وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا»[لقمان: 15]”اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں معروف طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔“(مال غنیمت سے) مجھے ایک تلوار پسند آئی تو میں نے پکڑ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ»[الأنفال: 1]”وہ آپ سے غنیمتوں کی بابت سوال کرتے ہیں۔“ میں بیمار پڑ گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (تیمارداری کے لیے) تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں، کیا نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جائز ہو گئی۔ میں نے انصار کے ایک گروہ کے ساتھ شراب پی تو ان میں سے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لے کر میری ناک پر دے ماری۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی۔
حدثنا الحميدي، قال: حدثنا ابن عيينة، قال: حدثنا هشام بن عروة قال: اخبرني ابي قال: اخبرتني اسماء بنت ابي بكر قالت: اتتني امي راغبة، في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فسالت النبي صلى الله عليه وسلم: اصلها؟ قال: ”نعم.“ قال ابن عيينة: فانزل الله عز وجل فيها: ﴿لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين﴾ [الممتحنة: 8].حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً، فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصِلُهَا؟ قَالَ: ”نَعَمْ.“ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا: ﴿لاَ يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ﴾ [الممتحنة: 8].
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مشرکین مکہ سے) معاہدے کے دوران میں میری ماں (اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم) میرے پاس (صلہ رحمی کی) خواہش مند ہو کر آئی، تو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، ابن عیینہ کہتے ہیں: اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ»[الممتحنه: 8]”اللہ تمہیں ان لوگوں کی بابت نہیں روکتا جو تم سے دین پر نہیں لڑے ......۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الوالد المشرك: 5978، 2620 و مسلم: 1003 و أبوداؤد: 1668»
حدثنا موسى، قال: حدثنا عبد العزيز بن مسلم، عن عبد الله بن دينار قال: سمعت ابن عمر يقول: راى عمر رضي الله عنه حلة سيراء تباع فقال: يا رسول الله، ابتع هذه، فالبسها يوم الجمعة، وإذا جاءك الوفود، قال: ”إنما يلبس هذه من لا خلاق له“، فاتي النبي صلى الله عليه وسلم منها بحلل، فارسل إلى عمر بحلة، فقال: كيف البسها وقد قلت فيها ما قلت؟ قال: ”إني لم اعطكها لتلبسها، ولكن تبيعها او تكسوها“، فارسل بها عمر إلى اخ له من اهل مكة قبل ان يسلم.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُلَّةً سِيَرَاءَ تُبَاعُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْتَعْ هَذِهِ، فَالْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَإِذَا جَاءَكَ الْوُفُودُ، قَالَ: ”إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ“، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ؟ قَالَ: ”إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ تَبِيعَهَا أَوْ تَكْسُوَهَا“، فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا جسے سیراء کہا جاتا تھا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! آپ یہ جوڑا خرید لیں اور جمعہ کے روز زیب تن کر لیا کریں، اور جب آپ کے پاس (دوسرے علاقوں سے) وفود آتے ہیں تو بھی پہن لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایسا (جوڑا) تو صرف وہی پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے جوڑے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ریشمی جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں یہ (ریشمی جوڑا) کیسے پہنوں حالانکہ آپ اس سے قبل اس بارے میں یہ فرما چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ جوڑا میں نے تمہیں اس لیے نہیں دیا کہ تم اسے پہنو، بلکہ (اس لیے دیا ہے کہ) تم اسے فروخت کر لو یا پھر کسی کو پہنا دو۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ (جوڑا) اپنے ایک بھائی کو، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا، مکہ بھیج دیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الأخ المشرك: 5981 و مسلم: 2068، صحيح أبى داؤد: 987»