حدثنا معاذ بن فضالة، قال: حدثنا هشام، عن يحيى هو ابن ابي كثير، عن ابي جعفر، انه سمع ابا هريرة يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”ثلاث دعوات مستجابات لهن، لا شك فيهن: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالدين على ولدهما.“حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَهُنَّ، لاَ شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دعائیں یقیناً مقبول ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ماجاء فى دعوة الوالدين: 1905 و أبوداؤد: 1586 و ابن ماجه: 3862، من حديث هشام الدستوائي به و ابن حبان: 2406»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 32
فوائد ومسائل: (۱)ہر انسان کی دعا جلد یا بہ دیر ضرور قبول ہوتی ہے جب تک انسان جلدی نہیں کرتا اور جلدی یہ ہے کہ وہ کہے: میں تو دعا کرتا ہوں لیکن قبول ہی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اللہ کافر کی دعا کے بدلے میں بھی اسے نوازتا ہے خواہ دنیا ہی میں دے دے۔ مومن کو مانگی ہوئی چیز مل جاتی ہے یا پھر اس سے بہتر اللہ تعالیٰ عطا فرما دیتا ہے یا دعا کی وجہ سے اس کی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے یا پھر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے۔ (۲) حدیث میں مذکور افراد کو ان کا مطلوب بعینہٖ مل جاتا ہے بشرطیکہ کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو جائے، مثلاً: ظالم مظلوم سے معافی مانگ لے، اولاد فرمانبرداری کرکے والدین سے معذرت کرلے وغیرہ یا مسافر کا کھانا پینا اور لباس حرام کا ہو۔ (۳) دعا جس قدر الحاء اور گریہ و زاری سے کی جائے اس کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ عافل دل کے ساتھ اور بے پروا ہوکر کی گئی دعا اللہ کے ہاں درجہ قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔ مظلوم چونکہ نہایت مشکل اور کرب میں ہوتا ہے اس لیے بے بسی کی وجہ سے اس کے دل سے ”ہوک“ اٹھتی جو سیدھی عرش الٰہی تک جا پہنچتی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ مظلوم اگر کافر ہو تب بھی اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کی دعا کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے اور فرماتا ہے: ﴿وَعِزَّتی لَأَنْصُرنَّكَ وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ﴾ ”میری عزت کی قسم! میں ضرور تیری مددکروں گا خواہ کچھ وقت کے بعد ہی ہو۔“(سنن الترمذي، حدیث: ۳۵۹۸) مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔ (صحیح البخاري، حدیث: ۲۴۴۵، وصحیح مسلم، حدیث: ۲۰۶۶) (۴) دعا کی قبولیت کے جملہ اسباب میں سے ایک سبب سفر ہے۔ بشرطیکہ وہ سفر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے لیے نہ ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں دعا کرنے کے بہت سے واقعات منقول ہیں۔ یوں تو مسلمان کے تمام اوقات ہی نہایت قیمتی ہیں لیکن سفر کے اوقات کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے لیے اور دوست احباب کے لیے بکثرت دعائیں کرنی چاہئیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دور حاضر کے سفر اللہ تعالیٰ نے اس قدر آسان کر دیے ہیں، پھر بھی بندے سفر میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں نہ ہی دعا کرتے ہیں بلکہ گانے سننے اور فلم دیکھنے میں اپنے سفر کے قیمتی اوقات ضائع کر دیتے ہیں اور کئی بدنصیب تو اسی حالت میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اعاذنا اللہ۔ سفر میں دعا کی قبولیت کی کیا حکمت ہے اسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، تاہم یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان سفر میں چونکہ اپنے اہل و عیال سے دور ہوتا ہے اور اجنبیت کی وجہ سے وحشت بھی محسوس کرتا ہے اس لیے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور اخلاص سے کی ہوئی دعا اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ قبولیت حاصل کرلیتی ہے۔ دعا کی قبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان ناز و نعمت میں نہ ہو بلکہ فقیر بن کر اللہ سے درخواست کرے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارش طلب کرنے کے لیے نکلتے تھے۔ دوسری روایات میں جہاں مسافر کی دعا کا ذکر ہے وہاں اس مسافر کی حالت یہ بیان کی گئی ہے: ((أشعث أغبر یَمُدُّ یدیه....الحدیث)) ”پرا گندہ بال، گردو غبار پڑے ہوئے کپڑے اور ہاتھ اٹھا کر التجا کرتا ہے....۔“ پھر اسی طرح حالت احرام میں خوشبو نہ لگانے اور کنگھی نہ کرنے کا حکم وغیرہ بھی اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مسافر کی دعا کی قبولیت کی وجہ اس کی اجنبیت اور پراگندگی ہے۔ (۵) والدین اور استاد اپنی اولاد اور شاگردوں کی ہمیشہ ترقی کے متمنی ہوتے ہیں اور کبھی بھی حسد نہیں کرتے۔ اسی طرح ان کے منہ سے بدعا بھی کم ہی نکلتی ہے۔ اگر والدین کسی انسان کے لیے بد دعا کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس نے والدین کو اس قدر اذیت دی ہے کہ پدری شفقت کے ہوتے ہوئے بھی وہ بد دعا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور ان کی یہ بد دعا محض الفاظ کا چربہ نہیں بلکہ دل سے اٹھنے والے ارمان ہیں جو فوراً عرش الٰہی تک جا پہنچتے ہیں اس لیے آدمی کو چاہیے کہ ہمیشہ والدین کی بدعاؤں سے بچے اور انہیں خوش کرکے ان کی دعائیں حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 32