حدثنا قبيصة، قال: حدثنا سفيان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يجزي ولد والده، إلا ان يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه.“حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لاَ يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ، إِلاَّ أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا، سوائے اس کے کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے (تو پھر حق ادا کر سکتا ہے)۔“
تخریج الحدیث: «صحیح: أخرجه مسلم، العتق، باب فضل عتق الوالد: 1510 و أبوداؤد: 5138 و الترمذي: 1906 و ابن ماجه: 3659، الارواء: 1747»
حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا سعيد بن ابي بردة قال: سمعت ابي يحدث، انه شهد ابن عمر ورجل يماني يطوف بالبيت، حمل امه وراء ظهره، يقول: إني لها بعيرها المذلل إن اذعرت ركابها لم اذعر ثم قال: يا ابن عمر اتراني جزيتها؟ قال: لا، ولا بزفرة واحدة، ثم طاف ابن عمر، فاتى المقام فصلى ركعتين، ثم قال: يا ابن ابي موسى، إن كل ركعتين تكفران ما امامهما.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، أَنَّهُ شَهِدَ ابْنَ عُمَرَ وَرَجُلٌ يَمَانِيٌّ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، حَمَلَ أُمَّهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ، يَقُولُ: إِنِّي لَهَا بَعِيرُهَا الْمُذَلَّلُ إِنْ أُذْعِرَتْ رِكَابُهَا لَمْ أُذْعَرِ ثُمَّ قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ أَتُرَانِي جَزَيْتُهَا؟ قَالَ: لاَ، وَلاَ بِزَفْرَةٍ وَاحِدَةٍ، ثُمَّ طَافَ ابْنُ عُمَرَ، فَأَتَى الْمَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: يَا ابْنَ أَبِي مُوسَى، إِنَّ كُلَّ رَكْعَتَيْنِ تُكَفِّرَانِ مَا أَمَامَهُمَا.
سعید بن ابوبردہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یمن کے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے، اور اس نے اپنی والدہ کو کمر پر اٹھا رکھا ہے، اور یہ اشعار پڑھ رہا ہے: ”میں اپنی ماں کے لیے سدھایا ہوا اونٹ ہوں، اگر اس کی سواریوں کو خوف زدہ کیا جائے تو میں خوف زدہ نہیں ہوں گا۔“ پھر اس نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے کہ میں نے اپنی والدہ کا بدلہ چکا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس (کی زچگی) کے ایک سانس کا بھی نہیں۔ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے طواف کیا اور مقام ابراہیم پر آ کر دو رکعتیں ادا کیں اور فرمایا: اے ابوموسیٰ کے بیٹے! ہر دو رکعتیں ماقبل کئے ہوئے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المروزي فى البر والصلة: 37 و الفاكهي فى أخبار مكة: 642 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 235 و البيهقي فى شعب الإيمان: 7926»
حدثنا عبد الله بن صالح قال: حدثني الليث قال: حدثني خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن ابي حازم، عن ابي مرة مولى عقيل، ان ابا هريرة كان يستخلفه مروان، وكان يكون بذي الحليفة، فكانت امه في بيت وهو في آخر. قال: فإذا اراد ان يخرج وقف على بابها فقال: السلام عليك يا امتاه ورحمة الله وبركاته، فتقول: وعليك السلام يا بني ورحمة الله وبركاته، فيقول: رحمك الله كما ربيتني صغيرا، فتقول: رحمك الله كما بررتني كبيرا، ثم إذا اراد ان يدخل صنع مثله.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَسْتَخْلِفُهُ مَرْوَانُ، وَكَانَ يَكُونُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَكَانَتْ أُمُّهُ فِي بَيْتٍ وَهُوَ فِي آخَرَ. قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ وَقَفَ عَلَى بَابِهَا فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكِ يَا أُمَّتَاهُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَتَقُولُ: وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ يَا بُنَيَّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَيَقُولُ: رَحِمَكِ اللَّهُ كَمَا رَبَّيْتِنِي صَغِيرًا، فَتَقُولُ: رَحِمَكَ اللَّهُ كَمَا بَرَرْتَنِي كَبِيرًا، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ صَنَعَ مِثْلَهُ.
سیدنا عقیل رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابومرہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مروان اپنا نائب بنایا کرتا تھا، اور وہ ذوالحلیفہ میں رہتے تھے، اور ان کی والدہ ایک گھر میں رہتی تھی، اور وہ خود دوسرے گھر میں رہتے تھے۔ ابومرہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب کہیں جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی والدہ کے (گھر کے) دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے: اے اماں جان! تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں، تو ان کی والدہ جواب میں فرماتیں: اور تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ وہ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) فرماتے: اللہ آپ پر رحم فرمائے جیسے آپ نے بچپن میں میری پرورش کی، تو جواباً فرماتیں: اللہ تجھ پر بھی رحم فرمائے جس طرح تو نے بڑے ہو کر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ اور جب واپس تشریف لاتے تو پھر اسی طرح کرتے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 151 و المروزي فى البر والصلة: 37 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 228»
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ”يبايعه على الهجرة، وترك ابويه يبكيان، فقال: ارجع إليهما، واضحكهما كما ابكيتهما.“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ”يُبَايِعُهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكَ أَبَوَيْهِ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِمَا، وَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کی بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا اور اس کے والدین (اس کی جدائی سے) رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے پاس واپس جا اور انہیں ہنسا جس طرح تو نے انہیں رلایا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أبوداؤد، الجهاد، باب فى الرجل يغزو و أبواه كارهان: 2528 و النسائي فى الكبريٰ، حديث: 8696، من حديث سفيان الثوري و النسائي: 4163 و ابن ماجه: 2782، صحيح الترغيب: 2481»
حدثنا عبد الرحمن بن شيبة قال: اخبرني ابن ابي الفديك قال: حدثني موسى، عن ابي حازم، ان ابا مرة، مولى ام هانئ ابنة ابي طالب اخبره، انه ركب مع ابي هريرة إلى ارضه بالعقيق فإذا دخل ارضه صاح باعلى صوته: عليك السلام ورحمة الله وبركاته يا امتاه، تقول: وعليك السلام ورحمة الله وبركاته، يقول: رحمك الله ربيتني صغيرا، فتقول: يا بني، وانت فجزاك الله خيرا ورضي عنك كما بررتني كبيرا قال موسى: كان اسم ابي هريرة: عبد الله بن عمرو.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ، مَوْلَى أُمِّ هَانِئِ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ رَكِبَ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَى أَرْضِهِ بِالْعَقِيقِ فَإِذَا دَخَلَ أَرْضَهُ صَاحَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: عَلَيْكِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ يَا أُمَّتَاهُ، تَقُولُ: وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، يَقُولُ: رَحِمَكِ اللَّهُ رَبَّيْتِنِي صَغِيرًا، فَتَقُولُ: يَا بُنَيَّ، وَأَنْتَ فَجَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَرَضِيَ عَنْكَ كَمَا بَرَرْتَنِي كَبِيرًا قَالَ مُوسَى: كَانَ اسْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ: عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو.
ام ہانی بنت ابو طالب رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابومرہ نے بتایا کہ میں سیدنا ابوہرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سوار ہو کر عقیق علاقے میں ان کی زمین کی طرف گیا۔ جب وہ اپنی زمین میں داخل ہوئے تو انہوں نے بآواز بلند کہا: اے میری ماں تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ ان کی والدہ نے جواب میں ایسے ہی کلمات کہے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تجھ پر رحم فرمائے جس طرح بچپن میں تو نے میری پرورش کی ہے۔ ان کی والدہ نے فرمایا: میرے بیٹے! اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے اور آپ سے راضی اور خوش ہو، جیسے تو نے بڑے ہو کر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ راوی حدیث موسیٰ بن یعقوب کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عمرو ہے۔