حکومت کے بیان میں اس آدمی کے بارے میں جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے جدا ہوا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حاکم کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے پھر اسی حال میں فوت ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔ اور جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے (جس لڑائی کی صحت شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو)، عصبیت کے لئے غصے میں آئے؟ عصبیت کی دعوت دے یا عصبیت کو ہوا دے (اور اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو) پھر مارا جائے تو اس کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہو گا۔ اور جو شخص میری امت پر دست درازی کرے اور اچھے برے کی تمیز کئے بغیر قتل و غارت کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہوا ہو اس کا عہد پورا نہ کرے، تو وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور میں اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا (یعنی وہ مسلمان نہیں ہے)۔
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے، جب یزید بن معاویہ کے دور میں حرہ کا واقعہ ہوا (اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو مدینہ سے ملا ہوا ایک مقام ہے، قتل ہوئے اور مدینہ والوں پر طرح طرح کے ظلم ہوئے) عبداللہ بن مطیع نے کہا کہ ابوعبدالرحمن (یہ سیدنا عبداللہ بن عمر کی کنیت ہے) کے لئے تکیہ یا گدہ بچھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں تیرے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا بلکہ ایک حدیث تجھے سنانے کو آیا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص اپنا ہاتھ اطاعت سے نکال لے، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور اس نے کسی سے بیعت نہ کی ہو، تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔
|