حکومت کے بیان میں اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کرنے اور نہ کرنے کا بیان۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے والد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کریں گے؟ میں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ میں نے قسم کھائی کہ میں ان سے اس کا ذکر کروں گا۔ پھر چپ رہا، دوسرے دن صبح کو بھی میں نے ان سے نہیں کہہ سکا، لیکن میرا حال ایسا تھا جیسے کوئی پہاڑ کو ہاتھ میں لئے ہو (قسم کا بوجھ تھا)۔ آخر میں لوٹ کر ان کے پاس گیا وہ مجھ سے لوگوں کا حال پوچھنے لگے تو میں بیان کرتا رہا، پھر میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور قسم کھا لی کہ آپ سے ضرور اس کا ذکر کروں گا، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں کریں گے۔ اگر آپ کا اونٹوں کا یا بکریوں کا کوئی چرانے والا ہو، پھر وہ آپ کے پاس ان اونٹوں اور بکریوں کو چھوڑ کر چلا آئے تو آپ یہ سمجھیں گے کہ وہ جانور برباد ہو گئے، اس صورت میں آدمیوں کا خیال تو اور بھی ضروری ہے۔ میرے اس کہنے سے ان کو خیال ہوا اور ایک گھڑی تک وہ سر جھکائے رہے (فکر کیا کئے) پھر سر اٹھایا اور کہا کہ اللہ جل جلالہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور میں اگر خلیفہ مقرر نہ کروں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اللہ کی قسم جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو نہیں کرنے والے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔
|