فضیلتوں کا بیان फ़ज़ीलतों के बारे में نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور اخلاق کا بیان۔
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز پڑھائی پھر پیدل تشریف لے گئے (راستے میں) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے کاندھے پر اٹھایا اور کہا کہ میرا باپ تجھ پر تصدق ہو (تو بالکل) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہے اور علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ نہیں ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر ہنس رہے تھے۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے تو ان (ابوحجیفہ) سے کہا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بیان کرو تو انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید رنگ تھے، بال کچھ سفید کچھ سیاہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرہ اونٹ دینے کا حکم دیا لیکن یہ اونٹ بھی ہم نے نہیں لیے تھے کہ آپ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وفات ہو گئی۔
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے، کہا گیا کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے تھے؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیان کچھ بال سفید تھے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قامت تھے، نہ بہت لمبے اور نہ بہت چھوٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سرخی مائل سفید تھا، نہ ایسے کہ بالکل سفید (چونے کی طرح) نہ بہت گندمی (زرد) رنگ (بلکہ سرخی مائل)، بال نہ سخت گھونگھریالے تھے اور نہ بالکل ہی سیدھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چالیس برس کی عمر میں وحی نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس برس مکہ میں رہے۔ وحی (قرآن) نازل ہوتی رہی اور دس برس مدینہ میں رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ (فائدہ: اہل عرب گنتی میں کبھی دہائیاں گنتے ہیں اور اکائیاں چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت کے بعد تیرہ سال رہے تھے۔)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ پست قد، نہ ایسے بالکل سفید رنگ نہ بالکل گندمی زرد رنگ، نہ سخت گھونگھریالے بال والے اور نہ بالکل سیدھے بال والے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر مبارک کے چالیسویں سال کے آخر میں بعثت (وحی قرآن) سے نوازا .... اور باقی تمام حدیث بیان کی (دیکھئیے پچھلی حدیث:)۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں میں خوبرو خوش رو، خوبصورت اور اخلاق میں بھی سب سے اچھے تھے، قد میں نہ بہت لمبے اور نہ بہت چھوٹے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب کیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں کنپٹیوں پر تھوڑی سی سفیدی آئی تھی۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قامت تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں میں فاصلہ تھا (سینہ چوڑا تھا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ (دھاری دار) حلہ پہنے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خوبصورت میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ آپ سے کہا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح (لمبا پتلا) تھا؟ انھوں نے کہا کہ نہیں بلکہ چاند کی طرح گول اور چمکدار۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (دوپہر کو) وادی بطحاء میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک برچھی (بطور سترہ) گڑی تھی .... یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب: امام کا سترہ مقتدیوں کا (بھی) سترہ ہے) اور اس روایت میں سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ اٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تھام کر اپنے (برکت کے لیے) چہروں پر پھیرنے لگے۔ سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھاما اور اپنے منہ پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (آدم علیہ السلام سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (شروع میں) پیشانی کے بال سامنے لٹکاتے اور مشرک لوگ مانگ نکالا کرتے۔ اہل کتاب بالوں کو لٹکاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بات میں کوئی حکم نہ آتا تو اہل کتاب کی موافقت (بہ نسبت مشرکوں کے) پسند فرماتے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر میں مانگ نکالنے لگے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو نہ تھے اور نہ ہی بدزبان بنتے اور فرماتے۔“ تم میں بہتر لوگ وہی ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باتوں میں اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اختیار کرتے جو آسان ہوتی بشرطیکہ گناہ نہ ہو، اگر گناہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اس سے الگ رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے اپنی ذات کے لیے بدلا نہیں لیا، بلکہ جب اللہ کے حکم کو کوئی ذلیل کرتا تو اللہ کے لیے اس سے بدلا لیا کرتے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ریشم اور کوئی (بھی) باریک کپڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہیں دیکھا اور نہ کوئی خوشبو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر سونگھی۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑکی سے زیادہ حیاء دار تھے جو کنواری ابھی پردے میں رہتی ہے۔
ایک روایت میں یوں ہے (شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں) کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کو برا سمجھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے معلوم ہو جاتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چاہتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے (برائی نہ کرتے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح (آرام سے اور ٹھہر ٹھہر کر) گفتگو کرتے کہ اگر کوئی گننے والا چاہتا تو ان (الفاظ) کو گن سکتا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح جلدی جلدی باتیں نہ کیا کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو۔
|