المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق जगत निर्माण, नबी और रसूलों का ज़िक्र और चमत्कार واقعہ اسرا و معراج “ असरा और मअराज की घटना ”
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سفید رنگ کا لمبا سا جانور براق لایا گیا، (اس کی سبک رفتاری کا یہ عالم تھا کہ) وہ اپنا قدم اپنی منتہائے نگاہ تک رکھتا تھا۔ میں اور جبریل اس پر سوار ہوئے، حتیٰ کہ بیت المقدس پہنچ گئے۔ ہمارے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے اور میں نے جنت اور جہنم دونوں دیکھیں۔“ حذیفہ بن یمان نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز نہیں پڑھی تھی۔ لیکن (سند کے راوی) زر کہتے ہیں: میں نے انہیں کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز پڑھی تھی۔ حذیفہ نے کہا: گنجے! تیرا نام کیا ہے؟ میں تیرا چہرہ تو پہچانتا ہوں، لیکن مجھے تیرے نام کا علم نہیں ہے۔ میں نے کہا: میں زر بن حبیش ہوں۔ انہوں نے کہا: تجھے کیسے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی؟ میں نے کہا: ” ارشاد باری تعالیٰ ہے: «سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ» ”پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔“ (۱۷-الإسراء:۱) انہوں نے کہا: کیا اس میں تجھے کوئی نماز پڑھنے کا تذکرہ ملتا ہے؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہوتی تو تم لوگ بھی نماز پڑھتے، جیسا کہ مسجد حرام میں پڑھتے ہو۔ زر کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری اس کڑے کے ساتھ باندھ دی، جس کے ساتھ دوسرے انبیاء علیہم السلام باندھتے تھے۔ حذیفہ نے پوچھا: (آیا باندھنے کی وجہ یہ ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشہ تھا کہ وہ کہیں بھاگ نہ جائے، حالانکہ اللہ تعالیٰ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس براق لایا گیا، وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا سفید رنگ کا لمبا جانور تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی۔ میں اس پر سوار ہوا، (اور چل پڑا) حتیٰ کہ بیت المقدس میں پہنچ گیا، میں نے اس کو اس کڑے کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ دوسرے انبیاء علیہم السلام بھی باندھتے تھے، پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ جب میں وہاں سے نکلا تو جبریل علیہ السلام شراب کا اور دودھ کا ایک ایک برتن لائے، میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو پسند کیا ہے۔ پھر ہمیں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ (جب ہم وہاں پہنچے تو) جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ پھر کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا: (جی ہاں) انہیں بلایا گیا ہے۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعا کی۔ پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، پوچھا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبرائیل ہوں۔ فرشتوں نے پوچھا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا: (ہاں! ان کو بلایا گیا ہے۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحی بن زکریا کو دیکھا، ان دونوں نے مجھے مرحبا کہا اورمیرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی۔ پھر ہمیں تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ فرشتوں نے پوچھا: کون؟ اس نے کہا: جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کہا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: جی ہاں! انہیں بلایا گیا ہے۔ سو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، وہاں میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا، (ان کی خوبصورتی سے معلوم ہوتا تھا کہ) نصف حسن ان کو عطا کیا گیا ہے۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ پوچھا گیا: کون؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ پھر پوچھا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! ان کو بلایا گیا ہے، پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں سیدنا علیہ اسلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم نے ادریس کا مقام و مرتبہ بلند کیا۔ پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا، اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا: کون؟ اس نے کہا: میں جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل نے جواب دیا: جی ہاں! انہیں بلایا گیا ہے، پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں ہارون علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور چھٹے آسمان پر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا کون؟ اس نے کہا جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر پوچھا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا ہاں! پس ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے وہاں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا۔ پوچھا گیا کون؟ اس نے کہا جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں! ان کو بلایا گیا ہے۔ سو دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔ وہ بیت معمور کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ (بیت معمور کی کیفیت یہ ہے کہ) ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔ پھر جبریل مجھے سدرة المنتھیٰ کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اس کا پھل مٹکوں کی مانند۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی چیز سے اسے ڈھانکا گیا تو (اس کی کیفیت یوں) بدل گئی کہ خلق خدا میں کوئی بھی اس کا حسن بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی اور ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا کچھ فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ اسلام نے کہا: اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کا سوال کرو، تیری امت (کے افراد) میں اتنی استطاعت نہیں ہے، میں نے بنی اسرائیل کو آزما لیا ہے اور ان کا تجربہ کر چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: پس میں اپنے پروردگار کی طرف واپس چلا گیا اور کہا: اے میرے ربّ! میری امت کے لیے (نمازوں والے حکم میں) تخفیف کیجئیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹا اور ان کو بتلایا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دی گئی ہیں، انہوں نے کہا: تیری امت کو اتنی طاقت بھی نہیں ہو گی۔ اس لیے اپنے رب کے پاس جاؤ اور اس سے (مزید) کمی کا سوال کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسی طرح اپنے پرودگار اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، ہر نماز (کے عوض) دس نمازوں کا ثواب ہے، (اس طریقے سے یہ) پچاس نمازیں ہو گئیں اور (مزید سنو کہ) جس نے نیکی کا قصد کیا اور (عملاً) نہیں کی تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس نے وہ نیکی عملاً کر لی تو اس کے لیے دس گنا ثواب لکھ دیا جائے گا اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عملاً اس کا ارتکاب نہیں کیا، تو اس (کے حق میں کوئی گناہ) نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے عملاً برائی کا ارتکاب کر لیا تو ( پھر بھی) اس کے لیے ایک برائی لکھ دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نیچے اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا اور ان کو (ساری صورتحال کی) خبر دی۔ انہوں نے پھر کہا: اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے مزید تخفیف کا سوال کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہا میں اپنے پروردگار کی طرف (باربار) لوٹ چکا ہوں۔ اب تو میں اپنے ربّ سے شرماتا ہوں۔“
ابن برید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل نے اپنی انگلی سے پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس کے ساتھ باندھ دیا۔“
|